• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

حکومت نے ڈاکٹر قیصر بنگالی کی رائے کو رابطے، سمجھ بوجھ کی کمی پر مبنی قرار دے دیا

شائع September 1, 2024
—فوٹو: اے پی پی
—فوٹو: اے پی پی

وفاقی حکومت نے گزشتہ روز حکومتی کمیٹی سے استعفیٰ دینے والے نامور ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ان کی رائے کو رابطے یا سمجھ بوجھ کے فقدان پر مبنی قرار دیا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ کی سربراہی میں قائم ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے قائم کی گئی رائٹ سائزنگ آف دی فیڈرل گورنمنٹ کمیٹی کے سابق اہم رکن ڈاکٹر قیصر بنگالی کے اعتراضات وفاقی حکومت کے ترجمان واضح کیا ہے کہ گریڈ ایک سے 16 نہیں بلکہ 22 تک تمام سرکاری عہدوں کو رائٹ سائز کیا جا رہا ہے۔

ترجمان وفاقی حکومت نے مزید بتایا کہ رائٹ سائزنگ کے پہلے مرحلے میں 6 وزارتوں اور اداروں کا جائزہ لیا گیا، ایک وزارت کو ختم کرنے کی منظوری دی جاچکی جب کہ 2 وزارتوں کو ضم کیاجارہاہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ تقریباً 60 ہزار عہدے سرپلس ہو سکتے ہیں جن میں گریڈ 17 سے 22 تک کے عہدے بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اپنی رائے رائٹ سائزنگ کمیٹی کے معزز رکن کی حیثیت سے دی، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی رائے رابطے یا سمجھ بوجھ کےفقدان پرمبنی ہے، حکومت 1973ءکے سول سرونٹس کے قانون میں ضروری ترمیم کررہی ہے، ایک لازمی ریٹائرمنٹ پیکیج پر کام ہو رہا ہے تاکہ یہ تمام سول سرونٹس پرلاگو ہوسکے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز ڈاکٹر قیصر بنگالی نے وفاقی وزیر خزانہ کی سربراہی میں قائم ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے قائم کی گئی رائٹ سائزنگ آف دی فیڈرل گورنمنٹ کمیٹی کی رکنیت کے علاوہ کفایت شعاری اور اخراجات میں کمی سے متعلق کمیٹوں کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا تھا۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرنے میں سنجیدہ نہیں، حکومت کی توجہ صرف چھوٹے ملازمین کی تعداد کم کرنے پر ہے تاہم چھوٹے ملازمین کو کم کرنے سے اخراجات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

انہوں نے کہا تھا کہ حکومت تجاویز کے برخلاف گریڈ 1 سے 16 کے ملازمین کو فارغ کررہی ہے، محکموں سے گریڈ 17 سے 22 کے افسران کی نوکریوں کو بچایا جارہا ہے، البتہ محکموں سے بڑے افسران کو ہٹایا جائے تو سالانہ 30 ارب کے اخراجات کم ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت تینوں کمیٹوں کی تجاویز کے برخلاف اقدامات کررہی ہے، اخراجات میں کمی کے لیے 50 سرکاری محکمے بند کرنے کی تجویز دی تھی۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا تھا کہ مجھے بے حد مایوسی ہوئی ہے کہ گھنٹوں کے سوچ بچار کے بعد صرف ایک غیر تجارتی ادارے کو مکمل طور پر بند کرنے کی سفارش کی گئی، میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کے پاس اخراجات کو کم کرنے کے عزم کا فقدان ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ معیشت تباہی کی طرف جارہی ہے، معیشت قرضوں کی وجہ سے وینٹی لیٹر پر ہے، آئی ایم ایف اور دیگر ادارے قرضے دینے کو تیار نہیں ہیں۔

یادر ہے کہ شہباز حکومت نے ’رائٹ سائزنگ‘ کے نام سے ایک منصوبہ بنایا ہے جس میں تحت مختلف اداروں کی نجکاری، غیر ضروری محکموں کی بندش شامل ہے جب کہ حکومت کا بنیادی ہدف اس منصوبے سے اربوں روپے کی بچت کرنا ہے۔

اس سے قبل 27 اگست کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران وزیر خزانہ کی سربراہی میں قائم ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے قائم کی گئی رائٹ سائزنگ آف دی فیڈرل گورنمنٹ کمیٹی نے اپنی تجاویز پیش کی تھیں۔

کابینہ کو بتایا گیا تھا کہ وفاقی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے، افرادی قوت کے صحیح استعمال، پالیسی سازی اور فیصلوں کے نفاذ میں غیر ضروری تعطل کے خاتمے اور صرف انتہائی ضروری محکموں کو مزید مضبوط کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں 6 وزارتوں پر کمیٹی کی سفارشات کا نفاذ شروع کردیا گیا ہے۔

اجلاس کو بتایا گیا تھا کہ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں ان وزارتوں کے 82 سرکاری اداروں کو ضم اور تحلیل کرکے 40 ایسے اداروں میں تبدیل کیا جارہا ہے جن میں ڈیجیٹائزیشن، اسمارٹ مینجمنٹ، ایفیشینٹ گورننس، منصوبوں پر شفاف اور تیز عملدرآمد اور عام آدمی کو سہولیات کی بہتر فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔

وفاقی کابینہ نے کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دیتے ہوئے اداروں کو ضم و تحلیل کرنے سے متوقع طور پر متاثر ہونے والے ملازمین کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کمیٹی قائم کی تھی۔

اس سے قبل رواں برس جون میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے نجکاری عبدلعلیم خان کا کہنا تھا کہ حکومت 24 ریاستی ملکیتی اداروں کی نجکاری کا ارادہ رکھتی ہے جن میں قومی ایئر لائن پی آئی اے، روزویلٹ ہوٹل، فرسٹ وومن بینک، یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن اور دیگر شامل ہیں۔

کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعطم شہباز شریف نے کہا تھا کہ ملک اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ افسر شاہی اور اشرافیہ غریب عوام کے ٹیکس پر عیش کریں لہٰذا وزرا اس بات کو یقینی بنائیں کہ متعلقہ وزارتوں اور اداروں میں کفایت شعاری مہم کے اقدامات پر بھرپور عمل درآمد جاری رہے۔

اس سے قبل وفاقی کابینہ نے گزشتہ دور حکومت میں وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں کابینہ کی جانب سے منظور شدہ کفایت شعاری مہم کے اقدامات کو جاری رکھنے کی منظوری دی تھی۔

ان اقدامات میں کابینہ ارکان کا رضاکارانہ طور پر تنخواہ نہ لینا، انتہائی ضروری گاڑیوں مثلاً ایمبولینس کے علاوہ سرکاری گاڑیوں کی خریداری پر پابندی، نئے آلات و مشینری کی خریداری پر پابندی، نئی سرکاری آسامیوں کی تخلیق، سرکاری خرچ پر غیرضروری بیرونِ ملک سفر اور بیرونِ ملک علاج پر پابندی شامل ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024