• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

حکمرانوں نے عدلیہ کا بیڑا غرق کرنے کا فیصلہ کیا، ترمیم کا مقصد مجھے جیل میں رکھنا ہے، عمران خان

شائع September 16, 2024
—فائل فوٹو: فیس بک
—فائل فوٹو: فیس بک

بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ حکمرانوں نے عدلیہ کا بیڑا غرق کرنے کا فیصلہ کیا ہے، آئینی ترمیم کا مقصد صرف مجھے جیل میں رکھنا ہے۔

اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئینی عدالت کا قیام اس لیے عمل میں لایا جا رہا ہے کیونکہ یہ سپریم کورٹ سے ڈرے ہوئے، نئی ترامیم سے ملک کا مستقبل تباہ ہو جائے گا، الیکشن فراڈ چھپانے کے لیے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ یہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دوبارہ لا کر عدلیہ کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں ہم اس کے خلاف خاموش رہیں گے، ہم اس کے خلاف بھرپوراحتجاج کریں گے، ہم لاہور میں پرامن جلسہ اور تاریخی احتجاج کریں گے، یہ ہمارے ملک کے مستقبل کا مسئلہ ہے، ان کو پتا ہے اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ گئے تو انسانی حقوق کی پٹیشنز سنی جائیں گی، اسی ڈر سے یہ ملک تباہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ ڈرے ہوئے ہیں کہ اگر الیکشن کھل گیا تو سب کچھ ریورس ہو جائے گا، رول آف لا کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، اس سے بڑا ظلم ملک پر نہیں ہو سکتا، یہ ملک سے قانون کی حکمرانی ختم کر کے جمہوریت کا بیڑا غرق کر رہے ہیں۔

عمران خان کے مطابق نیب ترامیم میں انہوں نے اپنے اربوں روپے معاف کروا کر خود کو تحفظ دیا، یہ سب کچھ ملکی مفاد کے خلاف ہو رہا ہے، ججز کو دھمکیاں دینے ، لوگوں کو اغوا کرنے، ایک سیاسی جماعت کو ختم کرنے سے سیاسی عدم استحکام بڑھے گا، ترمیم لانے والوں کے پیسے باہر پڑے ہوئے ہیں، حکومت میں بیٹھے لوگ عدلیہ کو آزاد نہیں دیکھنا چاہتے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اشرافیہ کا انٹرسٹ اور ملکی مفاد آپس میں متضاد ہیں، ان کا انٹرسٹ الیکشن فراڈ اور اپنا پیسہ بچانے میں ہے، 6 ماہ میں 4 ہزار پاکستانی کمپنیاں دبئی میں رجسٹر ہوئیں لیکن ان کو فرق نہیں پڑنا، ان کا پیسہ اور جائیداد باہر ہیں، محسن نقوی کی اہلیہ کی 50 کروڑ ڈالر کی پراپرٹی دبئی لیکس میں سامنے آئیں۔

انہوں نے بتایا کہ عوام کو اپنے حقوق، عدلیہ کو بچانے کے لیے کھڑا ہونا پڑے گا، میں ججز اور صحافیوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024