بھارت اور پاکستان میں بٹا بدقسمت خاندان مستقل ٹھکانے کا متلاشی!
سراج محمد خان 10 سال کے تھے کہ جب وہ غلط ٹرین میں سوار ہوگئے اور حادثاتی طور پر سرحد پار کرگئے جس نے ان کی زندگی کو مکمل طور پر تبدیل کردیا۔
ان کی عمر اب 38 سال ہے اور وہ گزشتہ 6 سالوں سے خیبرپختونخوا کے علاقے بٹگرام میں کرائے کے ایک کمرے میں رہائش پذیر ہیں۔ اس گھر میں ان کے ساتھ ان کی اہلیہ اور تین بچے بھی رہتے ہیں جوکہ بھارتی شہریت رکھتے ہیں، 2022ء میں سراج کو اپنی فیملی سے جدا ہونا پڑا لیکن رواں سال جولائی میں ان کے اہلخانہ ایک ماہ کے ویزا پر پاکستان آئے ہیں۔ ان کے پاکستانی ویزا کو پہلے ستمبر تک توسیع دی گئی اور فیملی کو امید ہے کہ ویزا کو ایک بار پھر توسیع ملے گی۔
حادثاتی طور پر بھارت جانے کے تقریباً تین دہائیوں بعد سراج ایک بار پھر اپنے پیاروں سے جدائی کی غیریقینی صورت حال سے دوچار ہیں۔
کم عمر بچے کا تجسس
سراج 1986ء میں ضلع مانسہرہ کے نواحی علاقے وادی کونس کے گاؤں شرکول میں پیدا ہوئے۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں سے ایک تھے۔ ایک دن وہ خراب امتحانی نتیجے کے باعث اپنے والد کی ناراضی سے خوفزدہ ہوکر اپنے ماموں سے ملنے کے لیے گھر سے فرار ہوئے۔
1996ء میں 10 سالہ سراج اپنے آبائی شہر مانسہرہ سے ایک بس میں سوار ہوئے اور لاہور پہنچے۔ وہ بس ٹرمینل سے ریلوے اسٹیشن پہنچے اور ایک ٹرین میں سوار ہوگئے جو ان کے خیال میں انہیں کراچی لے جارہی تھی۔
لیکن وہ جلدی میں ایک بہت بڑی کوتاہی کر بیٹھے۔ سراج نے ڈان کو بتایا، ’میں ٹرین میں سوار ہوا اور اس لمحے کے بعد سے میری زندگی کی کتاب میں محرومیوں سے متعلق نئے باب شامل ہونا شروع ہوئے‘۔ متعلقہ ٹرین سمجھوتا ایکسپریس تھی جو دہلی اور لاہور کے درمیان چلتی ہے۔
سراج نے بتایا کہ بوگی میں انہیں لوگوں کے درمیان کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نظر نہیں آئی محض کچھ خواتین نے گھاگرے پہنے ہوئے تھے۔ جب سراج نے سنا کہ ٹکٹ چیکر آرہا ہے تو وہ بوگی میں سوار خاندان کے ساتھ گھل مل گئے تاکہ ٹکٹ چیکر کی توجہ ان کی جانب مبذول نہ ہو۔
سراج اپنی یادداشت کے مطابق بتاتے ہیں کہ سرحد پار کرتے ہوئے انہیں امیگریشن کاؤنٹر سے گزرنا پڑا جہاں ’مسافروں کے ہاتھوں میں موجود کتاب (پاسپورٹس) پر اسٹیمپ لگائے جارہے تھے‘۔ لیکن وہ بچوں کی کتاب طلب نہیں کررہے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے دیگر بچوں کے ہمراہ کاؤنٹر پار کرلیا کیونکہ شاید اس دور میں امیگریشن کا عمل اتنا سخت نہیں تھا جتنا کہ آج ہے‘۔
سراج نے بتایا کہ دہلی پہنچنے سے پہلے ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ وہ کہاں سے ہیں۔ انہوں نے جواباً کہا مانسہرہ۔ شش و پنج میں مبتلا شخص نے مجھ سے پوچھا کہ میں جس مانسہرہ کا ذکر کررہا ہوں وہ پاکستان میں ہے؟ 10 سالہ بچے سراج نے پُراعتماد انداز میں اثبات میں جواب دیا۔ ’میں ان سے کہا کہ ہاں ہم پاکستان میں ہیں اور میں کراچی جارہا ہوں‘۔
یہی وہ لمحہ تھا کہ جب سراج کو اندازہ ہوا کہ وہ غلط ٹرین میں سوار ہوچکے ہیں اور اب وہ بھارت میں ہیں۔
وہ اجنبی شخص اچھا انسان تھا جو سراج کو اپنے گھر لے گیا جہاں انہوں نے تین سے چار دن گزارے۔ وہ بتاتے ہیں، ’انہوں نے بعد میں مجھ سے جانے کو کہا کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ حکومت یا قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک نامعلوم بچے کو اپنے گھر میں پناہ دینے پر تفتیش نہ کریں‘۔
اس اجنبی شخص نے سراج کے لیے بنارس ایکسپریس میں ایک سیٹ بُک کی جوکہ دہلی سے ممبئی کے درمیان چلتی ہے۔ اس شخص نے انہیں کچھ نقد رقم بھی دی۔
سراج نے بتایا کہ انہیں ’عجیب‘ کرنسی نوٹ دیکھ کر معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہونے لگا۔ انہوں نے زور دیا کہ وہ اپنے گھر واپس جانا چاہتے ہیں لیکن اجنبی شخص نے انہیں سمجھایا کہ اب یہ اتنا آسان نہیں۔ سراج بتاتے ہیں، ’اس کے بجائے انہوں نے مجھ سے ٹرین میں سوار ہونے اور آخری اسٹیشن پر اترنے کو کہا جوکہ ممبئی تھا‘۔
خاندان سے ملوانے کی کوششیں
تاہم جب ٹرین نے گجرات عبور کیا تو مقامی پولیس نے انہیں اپنی تحویل میں لے لیا جنہوں نے اس وقت انہیں احمدآباد کے چلڈرن ہوم میں منتقل کردیا۔
انہوں نے احمدآباد کے اس چلڈرن ہوم میں تین سال گزارے۔ اس وقت کے دوران سراج بتاتے ہیں کہ انہیں مختلف مقامات پر لے جایا جاتا جوکہ بہ ظاہر انہیں اپنے خاندان سے ملانے کی کوششیں تھیں۔ سراج بتاتے ہیں کہ میں انہیں بار بار کہتا تھا کہ میں مانسہرہ سے ہوں لیکن ان کا ردعمل یہی ہوتا تھا کہ 10 سالہ بچے کے لیے ممکن نہیں کہ وہ پاکستان سے بھارت آجائے۔ ’وہ مجھے کشمیر اور شملہ بھی لے گئے کیونکہ وہ کہتے تھے کہ میرے چہرے کے نقوش وہاں کے رہائشیوں سے مماثل ہیں‘۔
سراج کے بارہا اصرار کرنے پر حکام نے ان کے بتائے گئے ایڈریس پر خط لکھنے کا فیصلہ کیا اور خط کے ساتھ ان کی ایک تصویر بھی ارسال کی۔ تاہم اس خط کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
سراج بتاتے ہیں کہ 2018ء میں پاکستان واپس آنے پر انہیں علم ہوا کہ ان کے ماموں کو یہ خط موصول ہوا تھا جو انہوں نے میرے والد کو بھی دکھایا۔ ’مجھے بتایا گیا کہ میرے والد نے پوسٹل سروس حکام کے سامنے مجھے تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا جبکہ اس نے میری فیملی کو بتایا بھی تھا کہ میں بھارت میں رہ رہا ہوں‘۔
فیملی کی تلاش
تین سال بعد جب انہیں اپنے خاندان سے ملنے کی تمام امیدیں معدوم ہوتی محسوس ہوئیں تو انہوں نے شیلٹر ہاؤس سے فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔ وہ ایک بار پھر بنارس ایکسپریس میں سوار ہوئے اور ممبئی پہنچ گئے اور یہاں وہ سڑکوں پر رہنے لگے۔ اس مشکل وقت کے دوران وہ بھوکے پیٹ دنوں تک سخت موسم میں سڑکوں پر رہے۔
یہ سلسلہ مہینوں تک چلتا رہا اور اس دوران وہ چھوٹی معمولی نوعیت کی نوکریاں کرتے رہے۔ پھر انہیں شادی ہال میں برتن دھونے کی نوکری مل گئی۔ سراج نے کھانا بنانا بھی سیکھا اور وہاں تقریباً 9 سال تک کام کیا۔ اپنی تنخواہ سے انہوں نے ممبئی کی کچی آبادی وجے نگر میں ایک کمرہ بھی کرائے پر لے لیا۔
یہیں پر ان کی ملاقات ساجدہ سے ہوئی اور دونوں نے 2005ء میں شادی کرلی۔ ان کے ہاں پہلی اولاد بیٹی شادی کے ایک سال بعد ہوئی۔ 2010ء میں سراج کے گھر میں جڑواں بیٹوں کی ولادت ہوئی۔
ساجدہ نے ڈان کو بتایا کہ یہ شادی میرے بڑوں کی مرضی سے ہوئی اور ساتھ ہی کہا کہ ’ہم طویل عرصے سے ایک دوسرے کے ہمسائے تھے‘۔
سراج تنہا تھے لیکن ساجدہ کی صورت میں انہیں ایک وفادار اور محبت کرنے والا ساتھی ملا جو مشکل اور سہل وقت میں ان کی ساتھی بنیں۔ ساجدہ یاد کرتی ہیں کہ ’وہ عید پر اپنی فیملی کو خوب یاد کرتے اور جذباتی ہوجاتے تھے‘۔
دوسری جانب پہلی اولاد کی پیدائش کے بعد سراج نے شہریت حاصل کرنے کی کوشش کی اور جلد ہی انہیں آدھار (شناختی) کارڈ، راشن کارڈ اور ووٹر کارڈ مل گیا۔
آدھار کارڈ کی بنیاد پر انہیں بھارتی ٹیکس حکام کی جانب سے پین کارڈ (پرسنل اکاؤنٹ نمبر) بھی جاری کردیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے بینک اکاؤنٹ کھلوایا اور اپنا ڈرائیونگ لائسنس حاصل کیا۔ اب وہ ایک غیردستاویزی تاریک وطن نہیں رہے۔
ایک مستقل ٹھکانے کی خواہش
اگرچہ 2009ء میں وہ بھارتی شہری بن گئے تھے لیکن سراج کے دل میں اپنے گھروالوں کی یاد کسی آگ کی طرح سلگ رہی تھی۔ چونکہ اب انہیں شہریت مل چکی تھی اس لیے وہ سمجھ گئے تھے کہ اپنے وطن کا دورہ کرنے کا امکان کسی حد تک موجود ہے۔
وہ مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس گئے اور اپنی آپ بیتی بتائی، ان سے پاکستان کا دورہ کرنے کی اجازت طلب کی لیکن بھارتی ریکارڈز میں اب وہ ان کے شہری تھے۔
یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ پاکستان سے ہیں، سراج نے کراچی میں اپنے ماموں کو خط لکھا۔ سراج کے ماموں نے ان کے والد سے رابطہ کیا جو اس وقت حیات تھے۔ ان کے والد نے سراج کے اسکول کے دستاویزات بھیجے جو ثابت کرتے تھے کہ وہ پاکستان میں پیدا ہوئے۔
جب سراج نے یہ ثبوت بھارتی حکام کو دکھائے تو انہوں نے سراج کو غیرقانونی طور پر سرحد پار کرنے کے چارج کے تحت جیل میں ڈال دیا۔
عدالت کو ان کی ضمانت کی درخواست قبول کرنے میں ایک سال کا وقت لگا۔ تاہم عدالت نے سراج کو پاکستان ڈی پورٹ کرنے کا فیصلہ دیا لیکن ممبئی کی ہائی کورٹ نے 2014ء میں اس معاملے میں حکم امتناع جاری کیا۔ دوسری جانب انہیں غیرقانونی طور پر سرحد پار کرنے کے چارج میں 6 ماہ جیل بھیجنے کا حکم بھی دیا۔ سراج بتاتے ہیں کہ اس دوران انہیں مکمل تنہائی میں رکھا گیا اور مجھے اپنی فیملی سے ملنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔
2018ء میں معاملات اس وقت بدل گئے جب پاکستانی دفتر خارجہ کے حکام نے بھارتی حکام کو خط لکھ کر ان کی شہریت کو تسلیم کیا۔ ساجدہ کی یہ درخواست کی کہ ان کے شوہر کو انسانی بنیادوں پر بھارت میں رہنے کی اجازت دی جائے لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔
سراج بتاتے ہیں کہ ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے باوجود مجھے پاکستان ڈی پورٹ کردیا گیا۔ ’مجھے واہگہ لے جانے سے قبل اپنی فیملی سے ملنے کے لیے صرف 15 منٹ دیے گئے‘۔
سرحد پر ایک بھارتی اہلکار نے سراج سے کہا کہ وہ دوبارہ کبھی بھی بھارت میں قدم نہیں رکھ سکیں گے۔ انہوں نے ڈان کو بتایا کہ، ’اس وقت میں بالکل بےقابو ہوگیا تھا اور میں نے اپنے آپ کو مارنے کی بھی کوشش کی جس پر اہلکاروں نے مداخلت کرکے مجھے روکا‘۔
خاندان کے ساتھ ناروا سلوک
سراج نے بتایا کہ پاکستان آنے کے بعد تین دنوں تک فوجی حکام اور خفیہ ایجنسیز کے اہلکاروں نے ان سے تفتیش کی جس کے بعد انہیں مانسہرہ جانے والی بس میں سوار ہونے کی اجازت دی گئی۔
10 مارچ 2018ء کو تقریباً 22 سال بعد وہ اپنے گھر واپس لوٹے۔
لیکن ان کا اس طرح استقبال نہیں کیا گیا جس کی انہیں امید تھی۔ ان کے رشتہ داروں بشمول والدہ اور بہن بھائیوں نے انہیں مشکوک نظروں سے دیکھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں بھارتی جاسوس، ہندو اور کافر جیسے الفاظ سننا پڑے۔
سراج نے بتایا کہ گزشتہ 6 سال سے وہ پاکستان میں انتہائی پریشان ہیں۔ میرے بھائی کہتے ہیں کہ میں جائیداد کے لیے واپس آیا ہوں۔ میں تو صرف اپنی فیملی سے ملنا چاہتا تھا۔
سراج کو پاکستانی شہری بننے کے لیے لازمی دستاویزات مکمل کرنے کے لیے ایک سال کا وقت لگا جس میں پاسپورٹ بھی شامل تھا تاکہ وہ بھارت جا کر اپنی فیملی سے مل سکیں۔ لیکن بھارت کی جانب سے انہیں ویزا نہیں دیا گیا۔
ساجدہ اور ان کے بچے بھارت سے پاکستان آئے اور 2018 سے 2022ء کے درمیان سراج کے ساتھ 4 سال گزارے۔
ساجدہ کا استقبال سراج سے بھی بدتر سے کیا گیا۔ وہ کہتی ہیں، ’ان کا خاندان میرے ساتھ برتن بھی شیئر نہیں کرتا تھا اور میری رنگت کے حوالے سے عجیب تبصرے کرتے تھے‘۔ ساجدہ نے بتایا کہ ’سراج کی فیملی نے انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنی بھارتی بیوی اور فیملی کو چھوڑ دیں۔ ہم یہ سنتے رہتے ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں کے لیے مشکلات ہوتی ہیں لیکن مجھے کبھی بھی بھارت میں اس طرح کی نفرت کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘۔
ساجدہ نے بتایا کہ ان کے بچوں کو بھی خاندان کے افراد اور اسکول میں داخلے کے بعد ساتھی طلبہ کی جانب سے بیگانگی کا احساس دلایا گیا۔ سراج کی بڑی بیٹی 18 سالہ زارا کہتی ہیں، ’ہم کوشش کرتے کہ انہیں نہ بتائیں کہ ہم بھارت سے ہیں لیکن انہیں پتا چل جاتا اور وہ ہمارا مذاق بناتے۔ ہم نے خود کو اس کمرے تک محدود کرلیا کیونکہ باہر کی دنیا خوفناک ہوسکتی ہے‘۔
چار سال بعد ساجدہ اور ان کے بچوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ بھارت واپس چلے جائیں جس کے بعد وہ دو سال تک پاکستان نہ آسکے۔ سراج کی اہلیہ یاد کرتی ہیں کہ ان کے بغیر یہ دو سال جہنم سے کم نہیں تھے۔ وہ بتاتی ہیں کہ بھارت میں ان کے خاندان سے بھی ان کے روابط بہت کم تھے۔ ’پہلے پہلے میرا بھائی مجھ سے رابطے میں تھا لیکن دورہ پاکستان کے بعد سے وہ بھی ہمیں شک کی نظروں سے دیکھنے لگا‘۔
زارا کے لیے اپنے والد سے بچھڑنا ایک تکلیف دہ آزمائش تھی۔ اس بار پاکستان آنے سے پہلے وہ بھارت میں 10ویں جماعت کا امتحان دے کر آئی ہیں۔ ان کے بھارت واپس جانے کے بعد فیملی ان کی شادی کے بھی معاملات طے کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔ ’لیکن میں یہ سب اپنے والد کے بغیر نہیں کرنا چاہتی‘، زارا ڈان کو بتاتی ہیں۔
جڑواں بھائیوں عنایت اور اعجاز کے احساسات بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔
خاندان کا مستقبل دونوں ممالک پر منحصر
فی الوقت سراج اپنی فیملی کے ساتھ ہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ وہ سب جتنا وقت ممکن ہوسکے، ایک ساتھ رہیں پھر چاہے وہ پاکستان ہو یا بھارت۔
سراج نے بتایا کہ انہوں نے پاکستانی دفترخارجہ کو خط لکھ کر اپنی صورت حال بھی سمجھائی اور اپنی فیملی کے لیے ویزے میں توسیع کی بھی درخواست کی۔ انہوں نے ڈان کو بتایا کہ’لیکن انہیں چائے پانی کا خرچہ چاہیے’، وہ رشوت کے مطالبے کا حوالے دے کر کہتے ہیں۔ ’میں ایک مزدور ہوں جو کرائے کے ایک کمرے میں رہتا ہوں۔ وہ کیسے یہ توقع کرسکتے ہیں کہ میرے پاس رشوت دینے کے لیے پیسے ہوں گے؟‘
وہ بھارتی حکومت سے چاہتے ہیں کہ وہ انہیں بھارت آنے کی اجازت دیں تاکہ وہ اپنی بیٹی کی شادی میں شرکت کرسکیں۔ وہ کہتے ہیں، ’مجھے ڈی پورٹ ہوئے 6 سال ہوچکے ہیں‘۔ مقررہ وقت سے زیادہ قیام یا ویزا شرائط کی خلاف ورزی کے نتیجے میں 2 یا 10 سالوں کی پابندی لگ سکتی ہے جبکہ یہ بھارتی وزارت داخلہ کی صوابدید پر منحصر ہے۔
اب ان کا خاندان ایک ساتھ رہتا ہے کہ جدا ہونے پر مجبور ہوتا ہے، یہ دونوں ممالک پر منحصر ہے کیونکہ اسلام آباد اور دہلی کے درمیان پیچیدہ تعلقات ہیں جوکہ زیادہ تر ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہیں۔ کیا دونوں ممالک کے حکام کی جانب سے سراج اور ان کے خاندان کی فریاد پر شنوائی ہوگی؟
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔