حکومت کا نان فائلرز کیٹیگری ختم کرنے کا فیصلہ
حکومت نے اصولی طور پر نان فائلرز کیٹیگری کو ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے اور تمام افراد کو معیشت میں نقد لین دین کو بینکنگ چینلز کے ذریعے ٹرانزیکشن کا پابند بنایا جائے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مشاورتی اجلاس میں چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) راشد محمود لنگڑیال نے تمام اہم صنعتوں کے نمائندوں سے کہا کہ ہم لازمی طور پر نان فائلرز کے تصور سے نکلنا ہوگا اور اس کو ختم کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نان فائلنگ دھوکا دہی کا ایک طریقہ ہے جو مقامی طور پر قائم کیا گیا ہے، مزید کہنا تھا کہ ایف بی آر ایڈیشنل ڈیٹا کی مدد سے لوگوں کے مالیاتی لین دین کا جائزہ لے گا، رجسٹرار کے دفتر میں جائیداد کی لین دین کی دو کیٹگریز ہوں گی، اہل اور نااہل۔
ایف بی آر نے اہم صنعتوں سے تعلق رکھنے والے تاجروں کو ٹرانسفارمیشن پلان پر بریفنگ کے لیے مدعو کیا، جس میں وزیر مملکت برائے خزانہ و محصولات علی پرویز اور ان لینڈ ریونیو سروس (آئی آر ایس) کے ممبر پالیسی ڈاکٹر حامد عتیق سرور نے بھی شرکت کی۔
شرکا کو بریفنگ دیتے ہوئے راشد محمود لنگڑیال کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کے پاس ریٹرنز نان فائل کرنے یا صفر فائلنگ کے مسئلے کو ختم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر صورتحال بہتر نہ ہوئی تو حکومت کے لیے ٹیکس وصول کرنا ناممکن ہو جائے گا، یہاں تک کہ ٹیکس لگانے کے نئے اقدامات کا بھی فائدہ نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس کی زیادہ شرح کاروباری اداروں کو پاکستان میں رہنے سے حوصلہ شکنی کرے گی، جیسا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں دیکھا گیا ہے، مزید کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی بلند شرح ہنر مند افراد کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرے گی۔
پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ خرم مختار نے تجویز دی کہ ڈیجیٹل اور دستیاب ڈیٹا دونوں سروے کے ذریعے ملک بھر میں مینوفیکچرنگ لینڈ اسکیپ اور تمام شعبوں کی ایک جامع میپنگ کی جائے، اس عمل سے صلاحیتوں، پیداوار، اور کاروبار کی نوعیت سے متعلق شعبہ جاتی اعداد و شمار اکٹھا کیا جا سکے گا، جو فیصلہ سازی اور ٹیکس کی صلاحیت کا درست اندازہ لگانے کے لیے ضروری ہے۔
کمپلائنٹ (قواعد اور معیار کے مطابق) اور نان کمپلائنٹ ٹیکس دہندگان میں فرق کرنے کی ضرورت ہے، تعمیل کرنے والے ٹیکس دہندگان کو تمام فوائد حاصل ہوں گے، جس سے شرحوں میں کمی واقع ہوگی۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ ایف بی آر نان کمپلائنٹ ٹیکس دہندگان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جائے گی، جس کی شروعات رجسٹریشن سے ہوگی اور سرمایہ کاری اور بینک اکاؤنٹس کھولنے جیسی سہولیات کی دستیابی کو ٹیکس ریٹرن فائل کرنے سے منسلک کیا جائے گا۔
2023 میں نان فائلرز نے 20 ارب روپے ٹیکس ادا کیا، جبکہ ایف بی آر نے 423 ارب روپے سے زائد کا غیر دعوے دار ود ہولڈنگ ٹیکس وصول کیا، اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اصلاحات میں کیش کے چیک جاری کرنے کی ایک حد ہوگی، ایف بی آر ٹیکس گوشواروں میں افراد کی ظاہر کردہ آمدنی کی بنیاد پر تمام بینکوں کو معلومات فراہم اور مخصوص حد قائم کرے گا، حد سے زیادہ کوئی بھی مالیاتی ٹرانزیکشنز کی اطلاع ایف بی آر کو دی جائے گی، یہ نظام چند ماہ میں نافذ ہونے کی امید ہے۔
گل احمد کے زیاد بشیر نے ایف بی آر کو مشورہ دیا کہ وہ مجوزہ اقدامات کے بارے میں عوام کو مناسب طریقے سے آگاہ کریں، ان کا کہنا تھا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے اور کسی بھی تبدیلی سے شہریوں کو مؤثر طریقے سے آگاہی دینی چاہیے۔
نیسلے پاکستان کے شیخ وقار احمد نے ایف بی آر سے موجودہ قانون سازی کے مناسب نفاذ کی سفارش کی، تاہم کئی کاروباری افراد نے ایف بی آر کے اصلاحاتی منصوبے کے زیادہ تر اقدامات کو حکومت کے اس سیاسی عزم سے جوڑا جس کا مقصد نقدی معیشت کو کم کرنا اور ٹیکس کے فرق کو ختم کرنا ہے۔