’مخصوص سفارت کاروں‘ کو مقبوضہ کشمیر میں پولنگ کا جائزہ لینے کی اجازت
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں 2014 کے بعد ہونے والے انتخابات میں پہلی بار 15 ممالک کے غیر ملکی سفارت کاروں کو ووٹنگ کا مشاہدہ کرنے کی اجازت دی گئی۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق سری نگر اور نئی دہلی کے عہدیداروں نے بتایا کہ امریکا، میکسیکو، سنگاپور، اسپین، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک کے سفارت کار شامل ہیں۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر کے دوسرے مرحلے کے انتخابات میں ووٹرز نے حصہ لیا ،جن کی فوج اہلکاروں نے رائفلوں کے ساتھ پولنگ اسٹیشنوں کے باہر نگرانی کی۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی وجہ سے مسلم اکثریتی متنازع خطے کا براہ راست کنٹرول نئی دہلی کو سونپ دیا گیا، جس کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور بلیک آؤٹ ہوا تھا۔
اس صورتحال کے بعد سے اس علاقے میں منتخب حکومت کےبجائے وفاقی طور پر مقرر کردہ گورنر چارج سنبھالے ہوئے ہیں۔
تاہم اہم فیصلہ سازی کا اختیار اب بھی نئی دہلی کے پاس ہیں، ان کے پاس 90 رکنی اسمبلی کی جانب سے منظور کردہ قانون کو منسوخ کرنے کا اختیار بھی موجود ہے۔
تین مرحلوں میں ہونے والے انتخابات کے پہلے مرحلے میں 18 ستمبر کو ووٹنگ کی گئی تھی، جس میں تقریباً 61 فیصد ووٹرزنے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔
ووٹنگ کا آخری مرحلہ یکم اکتوبر کومنعقد ہوگا، جس کے نتائج ایک ہفتے بعد متوقع ہیں۔
امریکی سفارت خانے کے ڈپٹی چیف آف مشن جورگن کے اینڈریوز کا کہنا ہے کہ کشمیر آنے، انتخابی عمل اور جمہوریت دیکھنے کا یہ ایک نادر موقع ہے، یہ بہت ہموار لگ رہا ہے، سب کچھ بہت پیشہ ورانہ ہے۔
لیکن مودی کے مخالفین کے مطابق سفارت کاروں کا یہ دورہ غیر ضروری تھا۔
مودی حکومت کے عزائم پر سوال اٹھاتے ہوئے مقامی نیشنل کانفرنس پارٹی کے رہنما عمر عبداللہ نے ان کے مؤقف میں تضاد کی نشاندہی کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب غیر ملکی حکومتیں تبصرہ کرتی ہیں تو بھارتی حکومت کہتی ہے کہ یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے لیکن اب وہ چاہتے ہیں کہ غیر ملکی آئیں اور ہمارے انتخابات کی نگرانی کریں۔
انہوں نے اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے انتخابات ہمارا اندرونی معاملہ ہے اور ہمیں ان کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے، عمر عبداللہ نے مودی حکومت پر لوگوں کی توہین اور ہراساں کرنے اور انہیں حراست میں لینے کا الزام بھی عائد کیا۔
عمر عبداللہ کا مزید کہنا تھا کہ لوگ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، جو ان کی ثابت قدمی کا ثبوت ہے۔
بے روزگاری کی بلند شرح اور 2019 کی تبدیلیوں پرعوام کے غصے نے انتخابی مہم کو متحرک کر دیا ہے، 52 سالہ عبدالرحیم نے اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ایک نمائندہ ہو جو ہماری شکایات کوحکام تک پہنچائے۔
40 سالہ طارق احمد نے اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد کہا کہ 10 سال پہلے ہونے والے انتخابات کے بعد سے ہمیں خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے خوشی ہے کہ یہ الیکشن ہو رہے ہیں، مجھے امید ہے کہ ہمیں اپنا نمائندہ ملے گا جس کے ساتھ مجھے جیسے غریب لوگ روزمرہ کے مسائل اٹھا سکیں گے۔
آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھارت کے زیر تسلط انتخابات کے خلاف ’یوم سیاہ‘ کے طور پر مظاہرے کیے گئے۔
پاسبان حریت جموں و کشمیر کے زیر اہتمام مظفر آباد میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شہریوں اور مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
مظاہرین نے اقوام متحدہ کے دفتر کی جانب مارچ کیا اور تنازع کشمیر کے حل کے لیے بین الاقوامی مداخلت کا مطالبہ کیا۔
میرپور اور راولاکوٹ میں احتجاجی ریلیاں اور جلوس نکالے گئے جن میں شرکا نے بھارت مخالف اور آزادی کے حق میں نعرے لگائے۔
ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے اعلان کیا کہ بھارتی آئین کے تحت مقبوضہ کشمیر میں کسی بھی قسم کے انتخابات کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے اور نہ ہی یہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے عالمی برادری کی جانب سے کشمیریوں کے جائز حق خودارادیت کا متبادل ہوسکتا ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ کشمیر کے عوام نے نہ تو ماضی میں بھارت کی طرف سے ان کے مادر وطن پر غیر قانونی قبضے کو قبول کیا ہے اور نہ ہی مستقبل میں کسی بھی قیمت پر اسے قبول کریں گے۔