آرٹیکل 63 اے: سپریم کورٹ کے فیصلے پر وکلا تقسیم
سپریم کورٹ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63 اے سے متعلق حکم پر قانونی برادری تقسیم نظر آرہی ہے، یہ فیصلہ پارٹی پالیسی کے برخلاف ووٹ ڈالنے پر اراکین اسمبلی کی نااہلیت سے متعلق ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وکلا کی مرکزی تنظیموں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) اور پاکستان بار کونسل (پی بی سی) نے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا، جبکہ اسلام آباد بار کونسل (آئی بی سی) کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ موجودہ حکومت کے حق میں ہوگا، جو پارلیمنٹ سے متنازع آئینی ترمیم منظور کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ کے فیصلے نے پارٹی چھوڑنے سے متعلق آئینی شق کو چار صورتوں میں بے معنی کردیا تھا جن میں وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کا انتخاب؛ اعتماد یا عدم اعتماد کا ووٹ؛ آئینی ترمیمی بل؛ اور بجٹ شامل ہے۔
یہ شق پارٹی سربراہ کے فیصلے کو قانون سازوں پر لازم کرتے ہوئے ان کے ووٹنگ کے اختیارات کو محدود کرتی ہے۔ آرٹیکل 63 اے کے تحت کوئی بھی قانون ساز جو پارٹی لائن کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ پارلیمنٹ سے نااہل ہو جاتا ہے اور اپنی نشست کھو دیتا ہے۔ پچھلے حکم کے تحت ایسے ووٹوں کی گنتی نہیں کی جائے گی۔
ایس سی بی اے کی طرف سے دائر کی گئی نظرثانی کی درخواست پر آنے والے اس نئے فیصلے کا مطلب ہے کہ مستقبل میں منحرف قانون سازوں کے ووٹوں کی گنتی کی جائے گی۔
ایس سی بی اے کے صدر شہزاد شوکت نے نظرثانی درخواست منظور ہونے پر کمرہ عدالت میں خوشی کا اظہار کیا تھا۔
ملک بھر کے وکلا کے سب سے بڑے ریگولیٹری فورم پی بی سی نے کہا کہ پہلے کا فیصلہ غیر منصفانہ تھا کیونکہ اس میں پارٹی چھوڑنے والے قانون سازوں کو سزا دی گئی تھی جس میں ان کے ووٹوں کی گنتی نہیں کی گئی تھی۔
تاہم آئی بی سی کے وائس چیئرمین قاضی عادل عزیز نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کو اس معاملے کی سماعت ملتوی کرنی چاہیے تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا جب حکمران اتحاد وفاقی آئینی عدالت کے قیام اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر، تعیناتی اور تبادلوں کے عمل میں ترمیم کے لیے آئینی ترامیم منظور کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کی وکلا تنظیمیں 7 اکتوبر کو ایک کنونشن کا انعقاد کریں گی، امید ہے کہ ملک بھر سے وکلا ان کی ’قانون کی حکمرانی کی تحریک‘ میں شامل ہوں گے۔
پی بی سی کے وائس چیئرمین فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پانچ رکنی بینچ نے بین الاقوامی طرز عمل اور مغربی ممالک کے پارلیمانی اصولوں کی روشنی میں معاملے کا جائزہ لیا جہاں پارٹی لائن کے خلاف ووٹ ڈالنا رواج ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی عہدے پر فائز نہ ہونے پر نااہلی جنوبی ایشیا کے پارلیمانی نظام میں ایک تصور ہے۔
فاروق ایچ نائیک کے مطابق عدالت نے صحیح کہا ہے کہ 2022 کا فیصلہ ناقص تھا۔
اسلام آباد کے وکلا کے آئندہ کنونشن کے بارے میں پوچھے جانے پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پی بی سی سے سپریم بار کونسل ہونے کے ناطے بلدیاتی اداروں سے مشاورت نہیں کی گئی۔
سینئر وکیل سردار عصمت اللہ نے کہا کہ اگرچہ فیصلے کے وقت سے متعلق سوال اٹھایا جا سکتا ہے لیکن اس کے خلاف بڑے پیمانے پر دباؤ ڈالنےکا کوئی امکان نہیں ہے۔
بیرسٹر اسد رحیم خان نے بھی فیصلے کے وقت سے متعلق سوال اٹھایا لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ فیصلہ آئین کے مطابق ہے۔
انہوں نے ڈان اخبار کو بتایا کہ یہ دیکھنا مشکل تھا کہ آئین کے سادہ متن میں ناراض قانون سازوں کے ووٹوں کی گنتی کو کس طرح روک دیا گیا ہے۔
وکیل نے مزید کہا کہ نظرثانی کی درخواست حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم پیش کرنے کی کوشش کے چند دن بعد طے کی گئی تھی۔
ایک اور وکیل باسل نبی ملک نے کہا کہ بدقسمتی سے، جس وقت اور جلد بازی میں مذکورہ بینچ کی تشکیل کی گئی تھی، جس طرح فیصلہ دیا گیا، اس کی صداقت کو متاثر کر سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل کاشف علی ملک نے کہا کہ 2022 کے فیصلے نے پی ٹی آئی کے امیدوار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننے میں مدد کی۔
کاشف علی ملک کے مطابق یہ فیصلہ قانون کی نظر میں بھی قانونی تھا کیونکہ اس نے پارلیمنٹیرینز کو باغی ہونے سے روک دیا اور پارٹی چھوڑنے کے دروازے بند کر دیے تھے۔
کاشف علی ملک کے مطابق تفصیلی فیصلہ ابھی سامنے آنا باقی ہے، لیکن فیصلے کا مستقبل میں غلط استعمال ہو سکتا ہے۔