افغان خواتین پر ایک دوسرے سے بات کرنے پر پابندی نہیں لگائی، وزارت اخلاقیات
طالبان کی وزارت اخلاقیات نے افغان خواتین کی ایک دوسرے سے بات کرنے پر ممانعت کی حالیہ میڈیا خبروں کی تردید کردی۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق افغان میڈیا نے حالیہ ہفتوں میں وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سربراہ محمد خالد حنفی کی نماز کے احکام پر مبنی ایک آڈیو ریکارڈنگ کی بنیاد پر افغان خواتین پر دوسری خواتین کی آواز سننے پر پابندی کے حوالے سے رپورٹ کیا تھا۔
وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان سیف الاسلام خیبر نے اے ایف پی کو ایک وائس ریکارڈنگ کے ذریعے رپورٹ کے بے بنیاد اور غیر معقول ہونے کی تصدیق کی۔
انہوں نے بتایا کہ ’ ایک عورت دوسری عورت سے بات کرسکتی ہے، خواتین کو معاشرے میں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کی ضرورت ہوتی ہے، ان کی اپنی ضروریات بھی ہوتی ہیں۔’
انہوں نے مزید کہا اسلامی قانون کے تحت کچھ چیزوں پر عمل کرنا ہوتا ہے جیسا کہ محمد خالد حنفی نے بتایا کہ نماز کے دوران خواتین کو دوسری خواتین کے ساتھ بات کرنے کے لیے اپنی آواز کو بلند کرنے کے بجائے ہاتھ کے اشاروں کا استعمال کرنا چاہیے۔
افغانستان کے کچھ صوبوں میں ٹی وی اور ریڈیو پر خواتین کی آواز پر پابندی عائد ہے۔
واضح رہے کہ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد حکومت نے اسلامی قوانین پر سختی سے عمل درآمد کراتے ہوئے خواتین پر زیادہ پابندیاں عائد کی ہیں، اقوام متحدہ نے ان اقدامات کو ’صنفی امتیاز‘ قرار دیا ہے۔
ایک حالیہ قانون کے مطابق افغانستان میں خواتین کو عوامی مقامات پر بلند آواز میں شاعری سنانے یا گانا گانے سے منع کیا گیا ہے، اس قانون کے تحت گھروں سے باہر خواتین کا اپنا چہرہ ڈھانپنا بھی شامل ہے۔
طالبان حکام نے لڑکیوں اور خواتین کے لیے سیکنڈری اسکول کے بعد تعلیم پر پابندی عائد کی ہوئی ہے جبکہ ان پر مختلف ملازمتیں کرنے، پارکوں اور دیگر عوامی مقامات میں جانے پر بھی پابندی عائد ہے۔
طالبان حکومت نے کہا ہے کہ تمام افغان شہری اسلامی قوانین پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔