کوپ27، 28 کے دوران کیے گئے وعدوں پر تاحال عمل نہیں کیا گیا، وزیر اعظم
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی گزشتہ دو ماحولیاتی کانفرنس کوپ 27 اور 28 کے دوران کیے گئے مالیاتی اعلانات پر تاحال عمل نہیں کیا گیا۔
انہوں نے آذربائیجان کے درالحکومت باکو میں 29ویں کانفرنس آف پارٹیز (کوپ 29) کے دوسرے اور آخری روز پاکستان کا مقدمہ پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ کوپ 29 کے دوران یہ بات واضح اور واشگاف ہونی چاہیے کہ ہمیں کوپ 27 اور کوپ 28 کے دوران کیے گئے مالیاتی وعدوں کو پورا کرنا ہوگا، اور میں سمجھتا ہوں کہ ان بڑے مالیاتی وعدوں کو عملی شکل دی جانی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کا مقصد ان تباہ کن واقعات کو سمجھنا ہے جن کا بدقسمتی سے کچھ ممالک پہلے ہی سامنا کرچکے جب کہ اگر ہم نے اقدامات نہ کیے تو کچھ ملک ان کا سامنا کریں گے۔
شہباز شریف نے کہا کہ سربراہی اجلاس کے انعقاد پر میزبان صدر کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، پاکستان نے 2022 میں تباہ کن سیلاب کا سامنا کیا، موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان کو شدید نقصان ہوا، بیشتر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، کھری فصلیں تباہ ہوگئیں، سیلاب کے باعث اسکولوں کی عمارتیں گرگئیں، سیلاب کے باعث پاکستان کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ بروقت انتظامات نہیں کیے گئے تو آنے والے وقت میں نقصان ہوگا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف نے عالمی برادری سے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے فریم ورک کے مطابق خصوصی فنڈز مختص کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیرممالک کو 2030 تک 6.8 ہزار ارب ڈالر کی ضرورت ہے، موسمیاتی سرمائے میں قرضوں کو ایک نیا قابل قبول معمول نہیں بننا چاہیے۔
کوپ 29کانفرنس کے موقع پر پاکستان کی میزبانی میں کلائمیٹ فنانس گول میز مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ہم ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں جہاں کمزور ممالک کی ضروریات کو مؤثر طریقے سے پورا کرنے کے لیے عالمی موسمیاتی مالیاتی فریم ورک کو از سر نو تشکیل دیا جانا چاہیے۔
بعدازاں وزیراعظم نے تاجکستان کی میزبانی میں گلیشیئرز کے تحفظ سے متعلق تقریب سے بھی خطاب کیا تھا، اس موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے پاکستان سمیت اس خطے اور دنیا بھر میں تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز کی حفاظت کے لیے بہت قابل قدر کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ گلیشیئرز کے تحفظ کے عالمی سال کے موقع پر گلیشیئرز کے تحفظ کے لیے واضح اور دو ٹوک پیغام جانا چاہیے، مستقبل میں پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے کے لیے گلیشیئرز کا تحفظ ضروری ہے، گلیشیئرز پینے کے پانی کا بڑا ذریعہ ہیں۔
وزیر اعظم نے مزید کہا تھا کہ پاکستان میں 7 ہزار گلیشیئرز ہیں، پاکستان میں گلیشیئرز سے 90 فیصد پانی حاصل کیا جاتا ہے، درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیئرز کا پگھلنا خطرناک علامات ہیں، انسانیت کی بقا گلیشیئرز کے تحفظ سے مشروط ہیں۔
واضح رہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اقوام متحدہ کا سالانہ سربراہی اجلاس 2 روز قبل آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں شروع ہوا تھا، جس میں گزشتہ ایک سال کے دوران ترقی پذیر ملکوں کو موسمیاتی آفات سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فنڈز کی فراہمی سمیت مالیاتی اورتجارتی امور پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔
دو ہفتے جاری رہنے والے کوپ 29 فورم میں تقریباً 200 ممالک کے مندوبین شرکت کر رہے ہیں، اقوام متحدہ کے موسمیاتی سربراہ سائمن اسٹیل نے اپنے افتتاحی خطاب میں ایک نئے عالمی موسمیاتی مالیاتی ہدف کے بارے میں بتایا تھا۔
یہ کانفرنس ایسے وقت میں ہو رہی جب خبردار کیا گیا ہے کہ 2024 میں درجہ حرارت کے ریکارڈ ٹونٹے کا خدشہ ہے اور غریب ملکوں کے لیے موسمیاتی اثرات سے نمٹنے کے لیے ہنگامی مذاکرات ناگزیر ہیں۔
پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلی کے شدید خطرے سے دو چار ان 10 ممالک میں ہوتا ہے جنہیں غیر معمولی سیلابوں، مون سون کی شدید بارشوں، گرمی کی تباہ کن لہروں اور گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کا سامنا ہے۔
جون 2024 میں گرمی کی لہر کے نتیجے میں بلند درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا، جس نے صحت عامہ اور زراعت کو بری طرح متاثر کیا۔