سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس تحقیقات سے متعلق جماعت اسلامی کی درخواست نمٹا دی
جماعت اسلامی پاکستان کی جانب سے پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے قومی احتساب نیورو (نیب) سے رجوع کرنے کے بیان کے بعد سپریم کورٹ نے درخواست نمٹا دی جب کہ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے نیب سے داد رسی نہ ہو تو سپریم کورٹ کے بجائے ہائی کورٹ جائیے گا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے پانامہ لیکس سے متعلق جماعت اسلامی کی درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے پانامہ میں مخصوص کیس میں جے آئی ٹی بنائی گئی، علم نہیں پانامہ اسکینڈل کے باقی مقدمات کہاں گئے۔
وکیل جماعت اسلامی نے مؤقف اختیار کیا کہ یہی ہمارا مؤقف ہے، باقی کیسز کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے مؤقف اپنایا کہ نیب کو اس سلسلے میں کوئی درخواست نہیں دی گئی، جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے نیب کسی معلومات پر بھی ایکشن لے سکتا ہے، جماعت اسلامی کی درخواست نیب کے لیے انفارمیشن ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ نیب کا اختیار ترامیم کے بعد کم ہوگیا ہے، نیب نئی ترامیم کے مطابق ہی معاملے کو دیکھ سکتا ہے۔
جماعت اسلامی کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ہماری استدعا ہے کہ نیب ہماری درخواست پر پانامہ کی تحقیقات کرے، پانامہ پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کی مثال موجود ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ کس کیس میں کیا ہوا، عدالت کا کنسرن نہیں ہے، جسٹس جمال خان مندو خیل نے استفسار کیا پانامہ اسکینڈل میں جے آئی ٹی کس قانون کے تحت بنائی گئی تھی؟ کیا نیب قانون میں جے آئی ٹی کی گنجائش ہے؟
وکیل جماعت اسلامی نے کہا پانامہ اسکینڈل میں جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی تھی۔
دوران سماعت جماعت اسلامی نے پانامہ لیکس معاملے پر تحقیقات کے لیے نیب سے رجوع کرنے کی حامی بھر لی جس پر سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے پانامہ اسکینڈل معاملہ پر جماعت اسلامی کی درخواست نمٹا دی۔
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے نیب سے داد رسی نہ ہو تو سپریم کورٹ کی بجائے ہائی کورٹ جائیے گا۔
واضح رہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات اور آف شور کمپنیوں میں لگایا گیا سرمایہ واپس لانے کے لیے جماعت اسلامی نے 2016 میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
جماعت اسلامی کی درخواست میں وفاق، وزارت خزانہ، قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) سمیت دیگر اداروں کو فریق بنایا گیا تھا، تاہم اس میں وزیراعظم نواز شریف سمیت کسی سیاستدان کا نام شامل نہیں تھا۔
درخواست میں کہا گیا کہ آف شور کمپنیوں کے لیے غیر قانونی طریقے سے رقم باہر بھیجی گئی، عوامی عہدہ رکھنے والے بھی غیر قانونی رقم لوٹنے والوں میں شامل ہیں، جبکہ معاملے کو طول دینے کے لیے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) کو حتمی شکل نہیں دی جا رہی۔
درخواست دائر کرنے کے بعد اس وقت کے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ قومی دولت لوٹنے والوں کو گرفتار کرکے تحقیقات کا حکم دیا جائے۔
سراج الحق نے دیگر سیاستدانوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ مغل شہزادے اور سیاسی پنڈت گذشتہ 68 سال سے ملک کو لوٹ رہے ہیں، گھنٹی باندھنے کی بات سب کرتے ہیں لیکن باندھنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا اور نہ ہی حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہے۔
امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اپوزیشن کو خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا چاہیے اور نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان، سراج الحق سب کا احتساب ہونا چاہیے۔
واضح رہے کہ 2016 میں آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے۔
تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم (انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل تھا جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی ’آف شور‘ کمپنیوں کا ریکارڈ موجود تھا۔
ان دستاویزات میں روس کے ولادمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل ہیں،اس ڈیٹا میں وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کی آف شور ہولڈنگز کا ذکر بھی موجود ہے۔
ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، اس وقت کے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔
پاناما لیکس میں نواز شریف کے بچوں کے نام پر آف شور کمپنیاں ہونے کے انکشاف کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کئی بڑی جماعتوں نے وزیراعظم سے استعفے اور ان کمپنیوں میں منتقل ہونے والی رقم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
اس سلسلے میں اس وقت کے وزیراعظم نے ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا البتہ اس کمیشن کے ضابطہ کار پر حکومت اور حزب اختلاف میں اتفاق نہیں ہو سکا۔