’آئینی روح کے منافی قانون سازی، دینی مدارس کے متفقہ ڈرافٹ پر اعتراض حکومت کیلئے وبال بن سکتا ہے‘
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ 26ویں ترمیم کی منظوری کے دوران جن نکات پر حکومت قانون سازی سے دست بردار ہوئی، ایکٹ ذریعے ان کی منظوری اور دینی مدارس کے متفقہ ڈرافٹ پر اعتراضات حکومت کے لیے وبال بن سکتے ہیں۔
لاڑکانہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بے امنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں پرتشدد واقعات کی مذمت کرتا ہوں، پی ٹی آئی کے مظاہرین نے ڈی چوک جانے کااعلان کیا، اتنے بندوبست کے باوجود وہ وہاں تک کیسے پہنچے؟
فضل الرحمٰن نے کہا کہ مذاکرات اور بات چیت ہو تو راستہ نکل آتا ہے، ایک فریق کہے کہ ایک شخص کو جیل میں رکھنا ہے اور دوسرا کہے کہ ہم نے اسے چھڑانا ہے تو نتیجہ انارکی کے سوا کچھ نہیں۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ کسی پارٹی کے اندرونی معاملات کو زیربحث نہیں لاناچاہتا، آج کے حالات 8فروری کے الیکشن کی وجہ سے ہیں، اداروں کو الیکشن سے دور ہونا ہوگا تب ہی عوام کو سکون آئےگا۔
اس سوال پر کہ مدارس کے حوالے سے بل پر اب تک صدر مملکت آصف زرداری نے دستخط نہیں کیے، جواب دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اگر کل تک دستخط نہیں کیے تو پھر آنے والی اپنی کانفرنس میں اس پر بات کریں گے۔
ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے تو اپنا کام، اپنی نیت دکھا دی جن چیزوں پر وہ 26ویں ترمیم میں دست بردار ہوئے، 56 کلاز میں سے وہ صرف 22 پر متفق ہوئی، ان میں 5 کا بعد میں ہم نے اضافہ کیا، اس کے بعد پھر قانون سازی کرنا اور ایکٹ کے ذریعے ایسے قوانین پاس کرنا جو آئین کی روح اور 26 ویں ترمیم کی روح کے منافی ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان قوانین پر تو آصف زرداری دستخط کریں اور دینی مدارس کے اس ڈرافٹ پر جو الیکشن سے پہلے پی ڈی ایم کے دور حکومت میں پیپلز پارٹی کی موجودگی میں طے ہوا تھا اور اس پر اتفاق رائے پیدا ہوا تھا، 5 گھنٹے بلاول ہاؤس میں میٹنگ کرکے اس پر اتفاق رائے ہوا، 5 گھنٹے ہم نے لاہور میں میاں نواز شریف کے گھر میں اس پر اتفاق کیا، آج اس پر اعتراضات اٹھا رہے ہیں، یہ چیزیں ان کے لیے وبال بن سکتی ہیں، اتنا بھی آسان نہیں ہے لیکن میں نے کہا ہے کہ میں کل اس پر بات کروں گا۔