صحافی مطیع اللہ جان کو اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا
اسلام آباد کی انسداد دِہشت گردی عدالت کی جانب سے 10 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور ہونے کے بعد سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا۔
انسداد دِہشت گردی عدالت اسلام آباد میں آج صحافی مطیع اللہ جان کے خلاف منشیات، دہشت گردی کیس سے متعلق سماعت ہوئی تھی۔
جج نے ریمارکس دیے تھے کہ ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق صحافی مطیع اللہ جان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج رہا ہوں۔
اس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ہم نے ضمانت کی درخواست دائر کی ہے اور آج ہی سماعت کر دیں۔
جج نے ریمارکس دیے تھے کہ آپ کی درخواست ضمانت 7 صفحات پر مشتمل ہے، نوٹس کر رہا ہوں، نوٹس کا مطلب ہے پراسیکیوشن نے کوئی دلائل دینے ہیں تو دیں، میں نے اس دن بھی کہا تھا کہ اسکرینوں پر آکر صحافیوں کا ستیاناس ہو گیا ہے۔
جج نے عدالت کے باہر صحافیوں کی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایک شخص کی ڈیوٹی ہے اور آپ نکلتے ہوئے پراسیکیوٹر کو یہ کہیں کہ آپ حرام کھاتے ہیں، اگر آگے سے یہی جواب آئے کہ آپ بھی اپنی سوچوں کو فروخت کر رہے ہیں۔
فاضل جج نے کہا تھا کہ پراسیکیوٹر کی ویڈیو کو وائرل کر رہے ہیں، آج صحافی اعزاز سید کدھر ہیں، میں توقع کر رہا تھا وہ آج معذرت کریں گے۔
عدالت نے صحافی ثاقب بشیر سے استفسار کیا تھا کہ آپ کتنے عرصہ سے آرہے ہیں، کبھی اس طرح آپ نے کیا ہے، اب آپ کچھ نہیں کہیں گے۔
اس دوران مطیع اللہ جان روسٹرم پر آگئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ مجھے آج اس واقعے کا علم ہوا، اس پر عدالت سے معذرت چاہتا ہوں۔
بعدازاں، عدالت نے مطیع اللہ جان کی 10 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کر لی تھی۔
واضح رہے کہ مطیع اللہ جان کے اہلخانہ نے 2 روز قبل یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں بدھ کی رات پمز ہسپتال کی پارکنگ سے ساتھی صحافی ثاقب بشیر کے ساتھ نامعلوم افراد نے اغوا کیا تھا، تاہم ثاقب بشیر کو کچھ دیر بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔
بعدازاں گزشتہ روز ہی اسلام آباد کے مارگلہ تھانے کی پولیس نے مطیع اللہ جان کی گرفتاری ظاہر کرتے ہوئے ان کے خلاف پولیس اہلکاروں پر حملے اور منشیات لے جانے کے الزام میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔