• KHI: Fajr 5:42am Sunrise 7:03am
  • LHR: Fajr 5:21am Sunrise 6:47am
  • ISB: Fajr 5:29am Sunrise 6:58am
  • KHI: Fajr 5:42am Sunrise 7:03am
  • LHR: Fajr 5:21am Sunrise 6:47am
  • ISB: Fajr 5:29am Sunrise 6:58am

لاپتا افراد کیس: پارلیمنٹ مسئلہ حل کر کے خود کو سپریم ثابت کرے، جسٹس جمال مندوخیل

شائع December 3, 2024
— فائل فوٹو :
— فائل فوٹو :

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کا عام یا مشترکہ اجلاس بلا کر لاپتا افراد کے مسئلے کو حل کیا جائے، عدالت نے پارلیمان کو سپریم تسلیم کیا ہے ، پارلیمنٹ خود کو سپریم ثابت کرے۔

ڈان نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی آئینی بینچ نے لاپتا افراد کیس کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے لاپتا افراد کیس میں اٹارنی جنرل، وزارت داخلہ و دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے اور تمام متعلقہ اداروں سے رپورٹس طلب کرلیں۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کا عام یا مشترکہ اجلاس بلا کر مسئلے کو حل کریں، پارلیمنٹ کو عدالت نے سپریم تسلیم کیا ہے، پارلیمنٹ خود کو سپریم ثابت کرے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا مزید کہنا تھا کہ میری نظر میں لاپتا افراد کا کیس انتہائی اہم ہے، لاپتا افراد کے کیسز ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں چل رہے ہیں، لوگوں کی زندگیاں ہیں، ہزاروں لوگ لاپتا ہیں، یہاں اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ جیسے سینئر سیاستدان کھڑے ہیں، اس مسئلے کا حل پارلیمنٹ نے کرنا ہے۔

سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل جاوید اقبال نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کابینہ نے لاپتا افراد کے معاملے پر گزشتہ روز بحث کے بعد ذیلی کمیٹی بنا دی ہے، ذیلی کمیٹی اپنی سفارشات کابینہ کو پیش کرے گی، حکومت لاپتا افراد کا معاملہ حتمی طور پر حل کرنا چاہتی ہے۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ لاپتا افراد کا بیان بازی سے حل نہیں ہوگا، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ لاپتا افراد کمیشن نے اب تک کتنی بازیابیاں کی ہیں؟

جسٹس حسن رضوی نے سوال اٹھایا کہ کیا لاپتا افراد کمیشن کے پاس معلومات ہیں کہ کس نے افراد کو غائب کیا؟ جو لاپتا لوگ واپس آئے انہوں نے کیا بتایا؟ کون اٹھاکر لے کر گیا؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ لاپتا افراد واپس آنے پر کچھ نہیں بتاتے، واپس آنے پر کہتے ہیں کہ شمالی علاقے آرام کے لیے گئے تھے۔

ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے مؤقف اختیار کیا کہ ملک ڈیپ اسٹیٹ بن گیا ہے، جس پر جسٹس مندوخیل نے ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ کو بات کرنے سے روک دیا اور ریمارکس دیے کہ کھوسہ صاحب عدالت میں سیاسی بات نہ کریں، پارلیمنٹ کا عام یا مشترکہ اجلاس بلا کر مسئلہ کو حل کریں، لطیف کھوسہ نے مؤقف اختیار کیا کہ لاپتا افراد کے معاملے کو 26 ویں آئینی ترمیم کی طرح حل کیا جائے؟ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم بھی اپنے وقت پر دیکھی جائے گی۔

لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ لاپتا افراد سے بلوچستان سب سے زیادہ متاثرہ ہے، جس پر جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ قوم اور عدالت آپ پارلیمنٹرین کی طرف دیکھ رہی ہے۔

اعتزاز احسن نے عدالت کو بتایا پارلیمنٹ کے پاس عدالتی اختیارات نہیں ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ کھوسہ صاحب آپ کے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لوگ بھی اٹھائے گئے، جس پر لطیف کھوسہ نے کہا جی بالکل تحریک انصاف کے لوگوں کو بھی اٹھایا گیا۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا اٹھانے جانے والے افراد نے آکر بتایا کہ انہیں کون اٹھا کر لے گیا؟ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ جو اٹھائے گئے ان کے بچوں کو بھی اٹھا لیا جائے گا۔

دوران سماعت وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ لوگوں کے 10 سال 20 سال سے پیارے لاپتا ہیں، عدالت نے گزشتہ سماعت پر لاپتا افراد کے حوالے سے حکم دیا تھا، آج گزشتہ سماعت کا آرڈر بینچ کو نہیں مل رہا۔

آئینی بینچ کے جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ لاپتا افراد کے کیس میں عدالت کا آرڈر بھی لاپتا ہوگیا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ بلوچستان میں لاپتا افراد کے ایک کلاسک مقدمے میں 25 وکلاء پیش ہوئے، بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پر لاپتا افراد گھر آگئے، عدالت نے واپس آنے والے افراد کو پیش ہونے کا حکم دیا، بازیابی کے بعد وہ افراد کسی عدالتی فورم پر بیان کے لیے پیش نہیں ہوئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بازیاب افراد کے بیان ریکارڈ کرنے کا ایک مقصد تھا کہ اگر آرمی اس میں ملوث ہے تو کورٹ مارشل کے لیے جی ایچ کیو کو لکھا جائے، اگر دیگر ادارہ ملوث ہیں تو ان کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جائے، لاپتا افراد کے کسی مقدمہ کو مثال بنانا ہے تو اپنے اندر جرات پیدا کریں، لاپتا افراد سے واپس آنے والوں میں کوئی تو کھڑا ہو، لاپتا افراد کے کچھ کیسز افراد اور ریاست کو برباد اور بدنام بھی کرتے ہیں، لاپتا افراد کے نام پر آزادی کی جنگ بھی چل رہی ہے، سسٹم میں کوئی کھڑا ہونے کو تیار نہیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ اٹارنی جنرل کی یقین دہانی کے بعد 350 افراد لاپتا ہوگئے، اسٹیٹ آفیشل گزشتہ عدالتی احکامات کی نافرمانی کر رہے ہیں۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ کوئی شہری لاپتا نہیں ہوگا، آئینی بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ ہم لاپتا افراد کیس میں حل کی طرف جانا چاہتے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ لاپتا افراد کا حل یہ ہے اسٹیک ہولڈرز سر جوڑ کے بیٹھیں، غور کریں کہ لاپتا افراد کا مسئلہ کیوں پیدا ہوتا ہے، پارلیمنٹ کو عدالت نے سپریم تسلیم کیا ہے، پارلیمنٹ خود کو سپریم ثابت کرے۔

وکیل اعتزاز احسن نے کہا جو لاپتا افراد برآمد ہوئے ان کو بلایا جائے۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہم انہیں بھی بلائیں گے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا آپ اپنے آپ کو مضبوط کریں تو کون اٹھائے گا؟ لطیف کھوسہ نے کہا لکہ جو لاپتا ہوا اس سے پوچھیں کتنا تشدد ہوا۔

جسٹس جمال خان مندو خیل کا کہنا تھا کہ کھوسہ صاحب آپ سے ریکارڈ سے پوچھیں گے کہ آپ نے لاپتا افراد کے حوالے سے پارلیمنٹ میں کتنی تقرریں کیں۔

بعد ازاں، عدالت نے لاپتا افراد کیس میں اٹارنی جنرل، وزارت داخلہ و دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں سے رپورٹس طلب کرلیں اور کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2024
کارٹون : 3 دسمبر 2024