• KHI: Maghrib 5:51pm Isha 7:12pm
  • LHR: Maghrib 5:06pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:06pm Isha 6:35pm
  • KHI: Maghrib 5:51pm Isha 7:12pm
  • LHR: Maghrib 5:06pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:06pm Isha 6:35pm

پروپیگنڈا کرنے والے 2018 کی بات کیوں نہیں کرتے؟ یلغار سے مسائل حل نہیں ہوتے، اسحٰق ڈار

شائع December 11, 2024 اپ ڈیٹ December 12, 2024
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ پروپیگنڈا کرنے والے 2018 کی بات کیوں نہیں کرتے؟ یلغار سے مسائل حل نہیں ہوتے، ساری دنیا کو معلوم ہے کس نے الیکشن جیتا تھا اور کس کو جتوایا گیا۔

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) 2018 کا حساب دے، ساری دنیا کو معلوم ہے کس نے الیکشن جیتا تھا اور کس کو جتوایا گیا، ہمیں ملکر فیصلہ کرنا ہوگا۔

اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہماری سیاست میں ذاتیات پر اترنا بڑی ہی معیوب ہیں، 8 فروری کے الیکشن پر اگر گلہ شکوہ ہے تو عدالتیں اس کا فیصلہ کریں گے، اگر پی ٹی آئی کے مطابق 2018 میں قانونی طریقہ کار اپنایا گیا تھا تو اب بھی عدالتیں اسی طریقہ کار پر عمل پیرا ہیں، رواں سال الیکشن جیتنے کا دعویٰ کرنے والے ہمارا 2018 کا مینڈیٹ لوٹا دیں، ہم اس کو لے کر اپنی مدت پوری کرلیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس الیکشن کروانے کا اختیار نہیں تھا، ہماری جماعت نے ملکر آپ کے نام کی توثیق کرکے چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا، ہم نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا، یلغار سے معاملات حل نہیں ہوتے، پرامن احتجاج ہر ایک کا آئینی حق ہے لیکن اس میں سرکاری وسائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم یہ سوچیں کہ ایک فریق کی غلطیاں ہیں اور دوسرے کی نہیں، میں سمجھتا ہوں نہ انہوں نے 2018 میں کیا اور نہ ہم نے 2024 میں کیا، ہم تو انتخابی میدان میں ہوتے ہیں، کوئی ایسا راستہ نکالا جائے جس سے ہماری آنے والی نسلوں کو فائدہ ہو۔

اسحٰق ڈار نے کہا بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مقدمات عدالت میں ہیں، قانون کے مطابق جو ریلیف ان کا حق ہے انہیں ملنا چاہیے، 2018 میں بھی مقدمات بنائے گئے تھے جو ایک کھلی حقیقت ہیں۔

حکومت کو دی جانے والی بریفنگ کے مطابق احتجاج میں ہوائی فائرنگ ہوئی، اسحٰق ڈار

نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آج ایک بھی سرکاری ملازم کی گواہی نہیں ہے کہ حکومت کے کہنے پر کسی پر مقدمہ بنایا گیا ہو، میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ حکومت نے کسی پر مقدمہ بنانے کا نہیں کہا۔

اسحٰق ڈار نے مزید کہا کہ پرامن احتجاج سب کا حق ہے، دونوں ایوانوں سے وفاقی دارالحکومت میں ریلیوں اور جلسوں کے حوالے سے قانون منظور کیا گیا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی کہا کہ یہاں کوئی ریلیاں وغیرہ نہیں ہونی چاہیے، کیا ہمیں سب کی عزت نہیں کرنی چاہیے؟ جہاں قانون ریلیف دے وہاں آپ خوش ہیں اور جب کوئی فیصلہ خلاف آئے تو ماننے کو تیار نہیں، احتجاج کے نتیجے میں توہین عدالت کا کوئی نوٹس جاری نہیں ہوا لیکن یہ سارا معاملہ توہین کے دائرے میں ہی آتا ہے۔

وزیرخارجہ نے سوال اٹھایا کہ ڈی چوک پر ہی احتجاج ہی کیوں؟ سنگجانی کے حوالے سے بھی پیش کش کی گئی تھی، وزیر داخلہ اس حوالے سے انگیج رہے اور بات چیت کے کئی ادوار ہوئے لیکن پی ٹی آئی نے کہا نہیں ہم نے اسلام آباد جانا ہے۔

اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ 14 اکتوبر کو چینی وفد نے آنا تھا، انہوں (پی ٹی آئی) نے احتجاج کا اعلان کردیا، 27 سال بعد شنگھائی تعاون تنظیم ( ایس یس او) کا اجلاس ہوتا ہے اور یہاں پر احتجاج کا اعلان کردیا جاتا ہے، کیا یہ 126 دن والی تاریخ نہیں دہرائی جارہی؟

نائب وزیراعظم نے کہا کہ وزیرخزانہ نے وزیراعظم کو احتجاج اور دھرنوں سے نقصان کا تخمینہ بتایا ہے، 2014 میں آرمی پبلک اسکول سانحے کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کو شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے ذریعے میں نے پشاور آنے پر امادہ کیا تھا، جوڈیشل کمیشن کی باری آنے پر پی ٹی آئی نے ہمیں نام دیئے، 9 سال بعد بھی 35 پنکچروں کی معذرت نہیں آئی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی چینی صدر نے آنا تھا، جن کو نہیں معلوم آج ان کو بتا رہا ہوں کہ چینی سفیر نے اس وقت مجھے کہا تھا کہ پی ٹی آئی سے 3 دن کے لیے اپنا دھرنا مؤخر کرنے کی درخواست کریں ، درخواست کی گئی لیکن یہ نہیں مانے، سفیر دوسری بار پھر آئے تو میں نے انہیں کہا کہ آپ عمران خان سے براہ راست بات کرلیں، سفیر ان کے پاس گئے لیکن عمران خان نے ان کی بات سننے سے بھی انکار کردیا۔

اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ افسوس ہے کہ پی ٹی آئی ان تاریخوں کا انتخاب کرتی ہے جس میں پاکستان میں کوئی خاص سرگرمی ہوتی ہے، یہ نقصان انفرادی نہیں بلکہ پورے پاکستان کا ہے، خیبرپختونخوا سے 11 سینیٹرز کے انتخاب افسوسناک ہے لیکن کیا الیکشنز کو حکومت نے روکا ہے؟ میں مزید سینیٹرز کو خوش آمدید کہوں گا اور اس کے لیے جو بھی مدد درکار ہے وہ فراہم کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ احتجاج میں اگر کوئی ہلاکت یا زخمیوں کا کوئی سرٹیفکیٹ نہیں دیا گیا، تحریک انصاف کے ہر اول دستے میں غیر ملکی ہیں جو پوری طرح مسلح ہیں، کیا ہم کوئی دوسرا ملک فتح کرنے جارہے ہیں جو یہ لوگ ان چیزوں سے لیس ہیں؟ کیا یہ پرامن احتجاج کہلایا جاسکتا ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا احتجاج سے حراست میں لیے جانے والے 3 درجن سے زائد افراد افغانی ہیں، یہ ہم سب کا ملک ہے، ہمیں راستہ نکالنا ہوگا، 9 مئی کو تمام ریڈ لائنز کراس کی گئی، آج میرا جیسا مصالحت پسند بھی کچھ نہیں کرسکتا جب تک ان کا فیصلہ نہ ہو، 24 نومبر کو میں امید کررہا تھا کہ کچھ بہتر ہوگا اور میں کردار ادا کرسکوں گا لیکن آپ نے ایک اور 9 مئی کردیا۔

وزیرخارجہ نے کہا کہ آپ نے احتجاج کے دوران 4 رینجرز اہلکار اور 3 پولیس اہلکار شہید کردیئے، 232 لوگ زخمی ہیں جن میں سے تقریباً 57 کا تعلق اسلام آباد پولیس اور باقی پنجاب حکومت سے ہیں، ان میں درجنوں لوگ تشویشناک حالت میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے رہنما ان لوگوں کو جاکر دیکھیں ان کی کیا حالت ہے، یہ ہوا میں بات نہیں ہورہی سب تصدیق شدہ ہیں، اگر کوئی بندہ ہلاک ہوا ہے تو اس کے کوائف دیں میں آپ کے ساتھ اس کی تحقیق کرواؤں گا، ہوا میں باتیں نہ کی جائیں اور پاکستان کو بدنام نہ کیا جائے، تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملکر آگے بڑھنا ہوگا، اگر کسی بھی جماعت میں کالی بھیڑیں ہیں تو اس کو نکالنا ہوگا۔

نائب وزیراعظم کا کہنا تھا میں اداروں سے درخواست کروں گا کہ احتجاج میں شریک بیرونی عناصر کے نام سامنے لائے جائیں، تین درجن سے زائد افراد نے بتایا ہے کہ انہیں کتنے پیسوں میں لایا گیا تھا، مجھے جو اطلاع موصول ہوئی اس کے مطابق براہ راست فائرنگ کی کسی کو اجازت نہیں تھی، پہلے صف میں پولیس پھر رینجرز اور اس کے بعد فوج تھی۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ اگر ایک بھی جان گئی ہے تو حکومت اس کی ذمہ دار ہے، میں تحریک انصاف کی جانب سے سوشل میڈیا استعمال کرنے کا معترف ہوں، یہ فیک نیوز پھیلانے کے ماہر ہیں۔

وزیرخارجہ نے مزید کہا کہ حکومت کو دی جانے والی بریفنگ کے مطابق ہوائی فائرنگ ہوئی ہے، اس کے بعد پی ٹی آئی قیادت کے بھاگنے کے نتیجے میں افراتفری پھیلی۔

چین کی مدد سے گوادر ایئرپورٹ جلد آپریشنل ہوگا، وفاقی وزیر خزانہ

قبل ازیں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے سینیٹ اجلاس میں کسٹم کے حوالے سے توجہ دلاؤ نوٹس پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کسٹمز کی وجہ سے یہ کہنا کہ گوادر کی بندرگاہ پر شکایات ہیں درست نہیں، ہمیں وہاں حجم میں اضافہ کرنا ہے، وزیراعظم شہباز شریف کی گوادر میں برآمدات اور درآمدات کے حوالے سے باقاعدہ ہدایات ہیں۔

محمد اورنگزیب نے مزید کہا کہ گوادر سے برآمدات اور درآمدات، حجم میں اضافے کے لیے کابینہ میں بات ہوئی ہے، ہم ڈیجٹلائزیشن کی طرف جارہے ہیں جس سے انسانی عمل دخل کم ہو گا، اس سے کرپشن میں بھی کمی ہوگی، گوادر ایئرپورٹ چائنہ کی مدد سے آپریشنل ہونے جا رہا ہے، ایئرپورٹ آپریشنل ہونے سے علاقے کی ترقی ہو گی، پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت مختلف منصوبوں پر اقدامات تیزی سے جاری ہیں۔

چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت شروع ہونے والے سینیٹ اجلاس میں وفقہ ہوگیا، جہاں 9 قائمہ کمیٹیاں 8 بلوں پر اپنی رپورٹس ایوان بالا میں پیش کریں گی۔

اجلاس کے آغاز پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ آج کارروائی کے دوران صرف بلز پیش کیےجائیں گے، سینیٹر عون عباس نے کہا کہ ایوان کا بزنس روک کر پوائنٹ آف آرڈر پر بات کی اجازت دی جائے۔

چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر سے طے ہوا، بزنس نمٹالیں پھر پوائنٹ آف آرڈر پر بات ہوگی۔

اس دوران وقفہ سوالات اور جوابات کا عمل جاری تھا کہ نماز کا وقت ہوگیا اور کارروائی میں 15 منٹ کے لیے وقفہ کردیا گیا۔

پی ٹی سی ایل کی نجکاری کرنا متنازع عمل تھا، سینیٹر سعدیہ عباسی

وقفے کے بعد اجلاس میں وقفہ سوالات و جوابات میں پی ٹی سی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹر سے متعلق سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ 3 فیڈرل سیکریٹری پی ٹی سی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹر ہیں، وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کے اسپیشل سیکریٹری اظفر منظور پی ٹی سی ایل بورڈ کے رکن ہیں، جب کہ احد چیمہ دو بورڈز آف ڈائریکٹر کے رکن ہیں، ان کے خلاف رولنگ دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ سیکریٹری کا کام وزارت کی پالیسی بنانا ہوتا ہے، اظفر منظور کا پی ٹی سی ایل کی میٹنگ میں بیٹھنا متنازع عمل ہے، ضرورت ہی کیا ہے کہ وفاق کے سیکریٹریز کو بورڈ کے رکن بنایا جائے۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ وفاقی کابینہ نے یہ معاملہ اٹھایا تھا جو سرکاری افسر بورڈ کی میٹنگ میں جائے گا اور جو اعزازیہ ہوگا سرکاری خزانہ میں جمع ہوگا۔

اس موقع پر سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ میں چیئرپرسن سینیٹ آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کمیٹی ہوں، ہم اس مسئلے کو کچھ ماہ پہلے کمیٹی میں زیرِ بحث لائے تھے، وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کی طرف سے کمیٹی میں غلط جواب دیا گیا۔

پریذائیڈنگ افسر سینیٹر عرفان صدیقی نے ہدایت کی کہ آپ اس معاملے کو بطور چیئرپرسن کمیٹی ٹیک آپ خود ہی کرلیں۔

بعد ازاں پی ٹی سی ایل بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبران کے مراعات کی تفصیلات وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام نے تحریری طور پر پیش کردیں جن کے مطابق پی ٹی سی ایل بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین کو ہر اجلاس میں فیس کی مد میں 8 ہزار ڈالر دیے جاتے ہیں، پی ٹی سی ایل بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبران کو ہر اجلاس کی 5 ہزار فیس دی جاتی ہے۔

وزارت آئی ٹی کے مطابق پی ٹی سی ایل بورڈ آف ڈائریکٹرز کمیٹی کو ایک ہزار ڈالر دیا جاتا ہے، پی ٹی سی ایل بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبران میں سینیٹر احد چیمہ بھی شامل ہیں۔

اسلام آباد میں ڈکیتی، چوری کی وارداتوں میں بڑھتے اضافہ پر توجہ دلاؤ نوٹس

اسلام آباد میں ڈکیتی، چوری کی وارداتوں میں بڑھتے اضافہ پر توجہ دلاؤ نوٹس پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر ذیشان خانزادہ نے کہا کہ اسلام آباد میں موبائل چوری کی واردات عام بن گیا ہے، اسلام آباد کی یونیورسٹی، کالجوں میں ڈرگ کا استعمال معمول بن چکا ہے، رواں سال 2024 میں کرائم انڈیکس بڑھ گیا ہے، گھروں میں جا کر 5 ہزار کے لگ بھگ موبائل فون چوری کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کی توجہ پُرامن احتجاج کرنے والوں پر ہے، اسلام آباد پولیس اربوں روپے پرامن احتجاج کرنے والوں پر لگا رہی ہے، یہ پیسہ سیف سٹی پروجیکٹ پر لگنا چاہیے، اگر یہی حال رہا تو اسلام آباد سے سرمایہ کاری چلی جائے گی۔

26 نومبر کا دن سیاسی تاریخ میں سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا، شبلی فراز

اجلاس کے دوران پریذائیڈنگ افسر عرفان صدیقی نے کہا کہ اسلام آباد احتجاج اور واقعہ پر پارلیمانی لیڈرز 10 منٹ گفتگو کریں گے، ہر جماعت سے ایک رکن گفتگو کرسکے گا، ایوان کا ماحول سازگار رکھنا ہے۔

عرفان صدیقی نے شبلی فراز کی تقریر کے دوران ایمل ولی خان کو ٹوکنے سے روک دیا

اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے واقعہ 26 نومبر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 26 نومبر کا دن سیاسی تاریخ میں سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا، سانحہ 26 نومبر کی بنیاد 8 فروری کو رکھی گئی، پی ٹی آئی کو الیکشن سے پہلے متعدد مجبوریوں پر لایا گیا، پی ٹی آئی سے نشان چھینا گیا پھر بھی مضحکہ خیز نشانات پر عوام نے ووٹ دیے، حالات سے نظر آرہا تھا الیکشنز صاف شفاف نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ جن جماعتوں کو جتوایا گیا وہ اب ماضی کا حصہ بن چکی ہیں، ان جماعتوں نے تمام اداروں کوتباہ کیا اور عوام کو تھرڈ کلاس کیٹیگری میں رکھا، ہمارا مینڈیٹ چھینا گیا، ملک کے مقبول ترین لیڈر کو سیاسی مقدمات میں قید کیا گیا، ایسا سلوک کیا گیا کہ آمریت بھی شرما جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ زیادتیوں پر احتجاج نہ کرنا اس سے زیادہ ظلم ہے، جمہوری اور زندہ معاشروں میں ظلم پر احتجاج کیا جاتا ہے، عوام کو احتجاج کے جمہوری حق سے محروم رکھا گیا، الیکشنز ٹربیونل مذاق بن گئے۔

شبلی فراز نے کہا کہ یہ ایوان ناممکمل ہے،کےپی میں سینیٹ الیکشنز نہیں کرائے گئے، جہاں آپ کی اکثریت ہو وہاں الیکشنز ہوجاتے ہیں، تمام سختیوں رکاوٹوں کے عوام 26 نومبر کو آئے، اب معاشرہ سیاسی طور پر باخبر ہوگیا ہے۔

شبلی فراز کی تقریر کے دوران ایمل ولی خان نے ٹوکنے کی کوشش کی جس پر پریذائڈنگ افسر نے ایمل ولی خان کو روک دیا، شبلی فراز نے کہا کہ 24 نومبر احتجاج کے موقع پر 13 لوگوں کو شہید کیا گیا، ہمارے زیادہ تر شہداء کا تعلق کے پی سے ہے، 200 سے زائد مسنگ ہیں، 5000 لوگ ہمارے اس وقت جیلوں میں ہیں، وزیر داخلہ نے یہ بات کہی تھی کہ 5 منٹ گولیاں چلائے گے تو کوئی ادھر نظر نہیں آئے گا۔

’میڈیا مکمل بلیک آؤٹ ہے، ہر چینل پی ٹی وی، ہر اخبار پاکستان ٹائمز بنادیا گیا‘

انہوں نے کہا کہ حکومت کی بے حسی سامنے آگئی ہے، ڈیتھ سرٹیفکیٹ نہیں دیے جارہے ہیں، لوگوں نے پُرامن احتجاج کیا اور جواب میں گولیاں ماری گئی، نو مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 کے واقعات کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے، سپریم کورٹ کے 3 سینئیر ججز پر مشتمل جوڈیشل انکوائری کمیشن بنایا جائے، حکومت نے حالات کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے جلتی پر تیل کا کام کیا، ہمیں انتشاری کہا گیا وزیر اعظم نے آمر کی طرح بات کی۔

انہوں نے کہا کہ ایسی بات آمر نہیں کرتا جیسے شہباز شریف نے کی یہ رہنما والی بات نہیں تھی، ساری دنیا جانتی ہے کیا ہوا؟ اگر کچھ نہیں ہوا تو سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کردیں، جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے، آج جو ہمارے ساتھ ہوا کل آپ کے ساتھ ہوگا نئے معیارات طے کیا جارہے ہیں۔

شبلی فراز نے کہا کہ ایسے واقعات سے ملک ترقی نہیں کریگا، میڈیا کو مکمل بلیک آؤٹ کردیا ہے، ہر چینل کو پی ٹی وی بنادیا گیا، ہر اخبار کو پاکستان ٹائمز بنادیا گیا، میں کون سی ایسی باتیں کررہا ہوں جس سے ملکی سالمیت کو خطرہ پہنچ رہا ہے، ہماری پارٹی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ مذاکرات ہونے چاہیے۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی ہے، یہ مذاکراتی کمیٹی ہر کسی سے مذاکرات کے لیے تیار ہے، بانی تحریک انصاف نے مزاکرات کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، 5 رکنی کمیٹی سب سے بات کرنے کیلئے تیار ہے، اس وقت ملک کسی بھی طرح کی ہرزہ سرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا، سیاسی اختلاف رکھیں آپس میں دشمنیاں نہ بنائیں، ملک کی بہتری ترقی کیلئے آئیں ملکر بیٹھ کر بات کریں، ملک کو ہم ذاتی دشمنیوں کو بھینٹ نہیں چڑھا سکتے۔

کارٹون

کارٹون : 26 دسمبر 2024
کارٹون : 25 دسمبر 2024