• KHI: Zuhr 12:46pm Asr 4:43pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 4:02pm
  • ISB: Zuhr 12:22pm Asr 4:03pm
  • KHI: Zuhr 12:46pm Asr 4:43pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 4:02pm
  • ISB: Zuhr 12:22pm Asr 4:03pm

کراچی میں گرد و غبار سے سانس کے امراض میں تشویش ناک حد تک اضافہ

شائع December 12, 2024
ڈاکٹر رتھ فائو سول ہسپتال کی او پی ڈی کے باہر مریضوں کا رش — فوٹو: ڈان
ڈاکٹر رتھ فائو سول ہسپتال کی او پی ڈی کے باہر مریضوں کا رش — فوٹو: ڈان

موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی حالیہ ہفتوں کے دوران کراچی میں سانس کی بیماریوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے کیونکہ ماہرین کا ماننا ہے کہ گزشتہ سالوں کے مقابلے میں اس سال مریضوں کی تعداد نمایاں طور پر زیادہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماہرین صحت نے اس صورتحال کی وجہ ہوا کے خراب معیار کو قرار دیا، خاص طور پر دھول کی شدید آلودگی کی وجہ کو، جو اس وقت شہر کی تقریباً تمام سڑکوں کو متاثر کر رہی ہے۔

ماہرین نے اسے غربت کی بڑھتی ہوئی سطح سے بھی جوڑا جس کی وجہ ضروری خوراک اور دواؤں کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہے، جس سے لوگوں میں بیماری اور علاج سے معذوری کا خطرہ کئی گنا بڑھ گیا ہے۔

آغا خان یونیورسٹی ہسپتال (اے کے یو ایچ) کے سینئر پروفیسر اور کنسلٹنٹ پلمونولوجسٹ ڈاکٹر جاوید احمد خان نے ڈان کو بتایا کہ اگرچہ موسم سرما کے آغاز کے ساتھ سانس کی بیماریوں کے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے (کیونکہ ٹھنڈی اور خشک ہوا زیادہ آلودگی پھیلاتی ہے)، لیکن اس سال ان کی تعداد تقریباً دوگنا ہو گئی ہے، یہ ہسپتال میں داخل مریضوں اور او پی ڈی میں آنے والے، دونوں طرح کے مریضوں کے حوالے سے ہے۔

انہوں نے گرد و غبار (دھول کی آلودگی) میں بیماریاں پھیلنے کے حوالے سے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ ہوا کے معیار میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے، شہر بھر میں سڑکوں کی تعمیر کا بہت کام چل رہا ہے، درختوں کو کاٹا جا رہا ہے اور لوگ سڑکوں پر کچرا جلا رہے ہیں، زہریلا دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی جانچ نہیں کی جارہی ہے۔‘

ڈاکٹر جاوید احمد خان نے وضاحت کی کہ ہوا کا خراب معیار لوگوں کو دھول، دھوئیں، ٹریفک کے دھویں کے اخراج اور کیمیکلز جیسی آلودگیوں کے سامنے لاکر ’برونکائٹس‘ کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے، جبکہ مدافعتی نظام پر منفی اثر ڈال سکتا ہے، جس سے پھیپھڑوں اور دیگر انفیکشن کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

آلودگی کی کوئی بھی شکل مدافعتی نظام کو متاثر کرتی ہے اور یہ تعلق سائنسی طور پر متعدد مطالعات کے ذریعے قائم کیا گیا ہے، آلودہ ماحول میں رہنے والے افراد میں نمونیا، سانس کی اوپری نالی کے انفیکشن اور الرجی کے ساتھ ساتھ تپ دق کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بار جب جلن پیدا ہوتی ہے جس میں باریک مادہ ذرات 2.5 بھی شامل ہوتے ہیں تو وہ نظام تنفس کے مدافعتی نظام کو تباہ کر دیتے ہیں، جو مختلف جراثیموں کے خلاف ڈھال کا کام کرتا ہے، ایک بار جب مدافعتی نظام تباہ ہوجاتا ہے تو جسم کینسر سمیت ہر قسم کے انفیکشن اور بیماریوں کا شکار ہوسکتا ہے۔

عام طور پر انسانی بالوں کا اوسط قطر تقریباً 70 مائیکرو میٹر ہوتا ہے جبکہ باریک مادہ ذرات 2.5 قطر کے انہیلر ذرات ہیں، جن کا قطر عام طور پر 2.5 مائیکرو میٹر اور اس سے چھوٹا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر جاوید احمد خان نے بتایا کہ طبی مطالعات میں ہوا کے خراب معیار کو دل کی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے واقعات سے بھی جوڑا گیا ہے کیونکہ باریک مادہ ذرات 2.5 خون میں داخل ہوتا ہے اور شریانوں کو بلاک کرتا ہے۔

کیماڑی میں پریکٹس کرنے والے سینئر جنرل فزیشن ڈاکٹر عبدالغفور شورو نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں دمہ، برونکائٹس، فلو، دائمی رکاوٹ، پلمونری ڈزیزز (سی او پی ڈی)، نمونیا سمیت سانس کی بیماریوں کے کیسز میں 50 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملیر، قائد آباد، کورنگی سے گلستان جوہر، ماڑی پور، کیماڑی، اورنگی اور صدر جہاں کہیں بھی جائیں گے، آپ کو سڑکوں کی کھدائی یا تعمیراتی سرگرمیوں کی وجہ سے شدید گرد و غبار کا سامنا کرنا پڑے گا، عوام کے پاس آلودگی سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

سینئر جنرل فزیشن ڈاکٹر سجاد صدیقی سمجھتے ہیں کہ اس بیماری کی صورتحال کا تعلق لوگوں کی قوت خرید میں کمی سے بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوام انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں، وہ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں کیونکہ بہت سے علاقوں میں گیس موجود نہیں اور لوگ کھانا پکانے کے لیے سلنڈر خریدتے ہیں، انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ اگر یہی لوگ بیمار پڑ جاتے ہیں تو ان کے پاس ضروری دوائیں خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔

ڈاکٹر رتھ فاؤ سول ہسپتال کراچی میں ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر لیاقت علی ہالو نے بتایا کہ ہسپتال کے ’شعبہ امراض سینہ‘ میں سانس کی تمام اقسام کی بیماریوں، بالخصوص بچوں کو ہونے والی بیماریوں میں 25 سے 30 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہمیں نمونیا والے بچے، سی او پی ڈی اور دمہ والے بالغ مل رہے ہیں، اکثر سی او پی ڈی کے مریض وہ ہوتے ہیں جو آلودہ ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں یا تمباکو نوشی کرتے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ لوگوں کو کم از کم اچھے معیار کے ماسک پہننے چاہئیں یا حفاظت کے لیے کپڑا استعمال کرنا چاہیے (یا اگر وہ موٹر سائیکل پر ہیں تو ہیلمٹ کا استعمال کریں) حالانکہ یہ اقدامات زہریلی ہوا سے مکمل تحفظ فراہم نہیں کر سکتے۔

گھروں یا دفاتر کے اندر بھی ہوا کا معیار بھی اتنا ہی اہم ہے، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ سردیوں میں بھی گھر کو مناسب طریقے سے ہوا دار رکھا جائے، ڈاکٹر لیاقت علی ہالو نے کہا کہ لوگوں کو مچھر مارنے کے لیے کوائل اور لکڑیاں جلانے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ صحت پر ان کے مضر اثرات کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے، باورچی خانوں میں گیس کے چولہے کا استعمال بھی ہوا کے معیار کو متاثر کرتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 فروری 2025
کارٹون : 4 فروری 2025