• KHI: Zuhr 12:27pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:57am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 12:03pm Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:27pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:57am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 12:03pm Asr 3:23pm

10 ماہ میں 2 ہزار801 انٹیلیجنس آپریشنز میں 341 دہشت گرد مارے گئے، وزارت داخلہ

شائع December 13, 2024 اپ ڈیٹ December 14, 2024 12:16am
— فائل فوٹو: اے ایف پی
— فائل فوٹو: اے ایف پی

وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ جنوری 2024 سے 10 ماہ کے دوران 2 ہزار 801 انٹیلی جنس آپریشنز میں 341 دہشت گرد مارے گئے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں مجلس وحدت مسلمین کے ایم این اے حمید حسین نے حکومت کی جانب سے سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق سوال کیا تھا، جس پر وزارت داخلہ کی جانب سے جمع کرائے گئے جوابات کے مطابق جنوری سے اکتوبر تک خفیہ معلومات کی بنیاد پر 2 ہزار 801 آپریشن کیے گئے۔

اس میں کہا گیا کہ ان کارروائیوں کے نتیجے میں 341 دہشت گرد مارے گئے، جس سے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے حکومت کے اقدمات کا پتا چلتا ہے۔

وزارت داخلہ نے کہا کہ 10 ماہ کے دوران مزید 4 دہشت گرد تنظیموں زینبیون بریگیڈ، مجید بریگیڈ، حافظ گل بہادر گروپ اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کو کالعدم قرار دیا گیا جس کے بعد مجموعی طور پر کالعم تنظیموں کی تعداد 82 ہوگئی۔

اس میں مزید کہا گیا کہ دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شبہے پر نگرانی اقدمات کے تحت800 افراد کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت فورتھ شیڈول میں شامل کیا گیا، ان میں سے 400 کا پنجاب، 203 کا خیبر پختونخوا، 173 کا بلوچستان، 21 کا سندھ اور تین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔

دہشت گردی کی مالی معاونت کو روکنے کے حوالے سے وزارت نے کہا کہ 2 ہزار 350 مقدمات درج کیے گئے جن میں 2 ہزار 466 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا جن میں سے 526 کو سزا سنائی گئی اور مجموعی طور پر 58 کروڑ 12 لاکھ 6 ہزار روپے ریکور کیے گئے۔

ملک میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجوہات پر ایک سوال کے جواب میں وزارت داخلہ نے بتایا کہ 10 ماہ میں دہشت گردی کے 1566 واقعات ہوئے جن میں خیبر پختونخوا میں 948، بلوچستان میں 532، سندھ میں 24، پنجاب میں 10 اور اسلام آباد میں 2واقعات ہوئے۔

وزارت نے کہا کہ دہشت گردی کے ان واقعات میں مجموعی طور پر 924 شہادتیں ہوئیں اور 2 ہزار 121 شہری زخمی ہوئے۔

اس میں کہا گیا کہ ان شہدا میں سے 573 قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعلق رکھتے تھے، ان کے علاوہ ایک ہزار 353اہکار زخمی بھی ہوئے، جبکہ 351 عام شہری شہید اور 768 شہری زخمی ہوئے۔

روپورٹ کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ گزشتہ 10 ماہ کے دوران پاکستان بھر میں دہشت گردوں کی طرف سے بنیادی طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنایا گیا۔

وزارت داخلہ نے کہا کہ افغان طالبان کی اگست 2021 میں حکومت آنے کے بعد سے دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا اور کالعدم ٹی ٹی پی خاص طور پر خیبر پختونخوا، بلوچ قوم پرست باغی بلوچستان میں اور نسلی، لسانی قوم پرست سندھ میں پرتشدد کارروائیاں کر رہے ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے حال ہی میں اپنے اہداف کو تبدیل کر دیا ہے، اب وہ شہری آبادی کو نشانہ بنانے کے بجائے فوجی اور قانون نافذ کرنے والے افسران کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی تنصیبات اور اہم انفراسٹرکچر کو زیادہ نشانہ بنا رہے ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ اپنے مضبوط گڑھ سمجھنے جانے والے علاقوں سے محروم ہونے کے بعد کی ٹی ٹی پی کی مرکزی قیادت اب افغانستان میں موجود ہے اور پاکستان کے لیے مسلسل سیکیورٹی خدشات اور چیلنجز کا باعث بن رہی ہے، افغانستان میں تحریک طالبان افغانستان (ٹی ٹی اے) کی فتح نے ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو بلا خوف و خطر پاکستان میں سرگرمیاں جاری رکھنے کا حوصلہ دیا ہے۔

وزارت داخلہ نے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں غیر مستحکم سیکیورٹی ماحول کے باعث مختلف عالمی دہشت گرد تنظیموں (آئی ٹی اوز) کو مضبوط ہونے، اپنی موجودگی و وسائل کو بڑھانے اور افغانستان کے باہر اثر و رسوخ بڑھانے میں سہولت فراہم کی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ان عالمی دہشت گرد تنظمیوں کے خلاف فیصلہ کن مقابلہ کرنے میں عدم فعالیت اور نااہلی نے انہیں بڑھتے ہوئے سنگین اور بین الاقوامی خطرے کا باعث بننے دیا ہے۔

جواب میں کہا گیا کہ ٹی ٹی پی نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی علاقوں میں نقل و حرکت اور آزادانہ کارروائی کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہیں جب کہ افغان طالبان کی حکومت ان علاقوں پر موثر کنٹرول کا فقدان دکھائی دیتا ہے جس سے ٹی ٹی پی کو اپنی موجودگی برقرار رکھنے اور سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت ملتی ہے۔

اس میں کہا گیا کہ ٹی ٹی پی سرحد پر دراندازی میں بھی ملوث ہے جو چھوٹے گروپوں کو افغانستان سے گردی کے لیے سرحد پار پاکستان بھیجتی ہے۔

اس میں کہا گیا کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات افغان شہریوں کے بڑھتے رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں جو پہلے افغانستان کے اندر مسلح سرگرمیوں میں ملوث تھے اور پاکستان میں اپنی کارروائیوں کی حمایت کے لیے ٹی ٹی پی جیسے دیگر دہشت گرد گروہوں میں شامل ہو رہے ہیں۔

وزارات داخلہ نے کہا کہ ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں میں افغان شہریوں کی شمولیت ان کی حمایت میں توسیع اور علاقائی ایجنڈا رکھنے والے گروپوں کے ساتھ ان کی صف بندی کو ظاہر کرتی ہے جب کہ یہ گروپ براہ راست افغانستان کے خلاف نہیں ہیں۔

وزارت داخلہ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے نتیجے میں ٹی ٹی پی جیسی دہشت گرد تنظیموں کے پاس کافی مقدار میں جدید ہتھیار آگئے ہیں، اس طرح ان کی کارروائیاں کرنے صلاحیت میں اضافہ ہوا اور علاقائی سلامتی کے لیے خطرات بڑھ گئے۔

وزارت داخلہ نے خبردار کیا کہ دہشت گرد گروہ چین کے تعاون سے چلنے والے ترقیاتی منصوبوں جیسے کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے لیے ایک اہم خطرہ ہیں جیسا کہ ان منصوبوں پر کام کرنے افراد پر حملوں کی بڑھتی تعداد سے ظاہر ہوتا ہے۔

جواب میں کہا گیا کہ یہ حملے دہشت گردوں کے ایک ملک کے مفادات کو دوسرے ملک کی سرزمین پر نشانہ بنا کر ایک ریاست سے دوسری ریاست کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنے کے ان کے عزم کو ظاہر کرتے ہیں۔

1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 13 دسمبر 2024
کارٹون : 12 دسمبر 2024