ٹرمپ کی نئے ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی کے بعد چین مذاکرات کا خواہاں
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نئے ٹیکس ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی کے بعد چین اس سے مذاکرات کا خواہاں ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی خبر کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جیسے ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے خلاف اپنی ٹیرف دھمکیوں میں اضافہ کیا ویسے ہی بیجنگ خود پر پابندیں عائد کرکے امریکی صدر کو شکست دینے اور مکمل تجارتی جنگ سے قبل واشنگٹن کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کوشاں ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت صدرات کے دوران سابقہ تجارتی جنگ کے اسباق سے سیکھتے ہوئے چین نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ تجارت، سرمایہ کاری، سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت دوطرفہ تعلقات کے متنازع پہلوؤں پر بات چیت شروع کرنے کے لیے سودے بازی کے لیے استعمال ہونے والے اقدامات کر رہا ہے، اسے اپنی پہلے سے ہی کمزور معیشت پر اضافی ٹیکسز کے نقصان دہ اثرات کے بارے میں بھی تشویش ہے۔
رواں ہفتے چین نے امریکی چپ کی بڑی کمپنی نویڈیا کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا جس کے بارے میں اس نے دعویٰ کیا کہ اس کی جانب سے عدم اعتماد کی مشکوک خلاف ورزیاں کی گئی ہیں، اس کے بعد نایاب معدنیات کی امریکی برآمدات پر پابندی لگائی۔
ایچ ایس بی سی کے چیف ایشیا اکانومسٹ فریڈ نیومن نے کہا کہ ہمیں اسے ابتدائی اقدامات کے طور پر دیکھنا ہے جو کہ آخر کار امریکا کے ساتھ ٹیرف کے نفاذ کے بجائے مذاکرات میں بدل جائے گا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے چائنا سینٹر کے ریسرچ ایسوسی ایٹ جارج میگنس نے کہا کہ چین تقریباً کسی بھی ٹیرف سے نمٹنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہے جو تمام چینی اشیا پر 60 فیصد ٹیرف کے اعلان سے کم ہو۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے ساتھ ایک نئی تجارتی جنگ اب بھی چین کو زیادہ نقصان پہنچائے گی، جب کہ واشنگٹن اپنی اشیا پر درآمدی ڈیوٹی لگا سکتا ہے اور چین کو اپنی سپلائی چین بحال رکھنے میں مشکلات ہو سکتی ہیں۔