جنوبی کوریا کے صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک کامیاب، وزیراعظم قائم مقام صدر ہوں گے
جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کے خلاف ملک میں مارشل لا نافذ کرنے پر حزب اختلاف کی مواخذے کی تحریک کامیاب ہوگئی، جس کے بعد انہیں معطل کردیا گیا ہے جب کہ وزیراعظم ہاں ڈک سو جنوبی کوریا کے قائم قام صدر ہوں گے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کے خلاف پارلیمنٹ میں صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک پر ووٹنگ ہوئی، حکمراں جماعت کے ارکان نے بھی ووٹنگ میں حصہ لیا۔
جنوبی کوریا کے صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک کامیاب بنانے کے لیے 300 ارکان کے ایون میں تحریک کے حق میں 204 ووٹ ڈالے گئے، 85 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا جب کہ 3 ارکان غیر حاضر رہے اور 8 ووٹ کالعدم قرار پائے۔
یاد رہے کہ مواخذے کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے دو تہائی ارکان یعنی 200 ووٹ درکار تھے تاہم پچھلی ہفتے پیش کی جانے والی تحریک کے حق میں 195 ووٹ ڈالے گئے تھے۔
جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے رواں ماہ کے آغاز میں ملک میں مارشل لا نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے خلاف ملک کے دارالحکومت سیئول میں ہزاروں افراد صدر کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج کیا جب کہ مواخذے کی تحریک پر ووٹنگ کے دوران پارلیمنٹ کے باہر شہریوں کی بڑی تعداد جمع رہی۔
صدر یون سک یول کے خلاف مواخذے کی تحریک کامیاب ہوتے ہی انہیں عہدے سے معطل کردیا گیا ہے، وہ بحیثیت صدر اب مزید فرائض انجام نہیں دے سکتے جب کہ جنوبی کوریا کی آئینی عدالت ووٹنگ پر غور کر رہی ہے، عدالت کے پاس یون کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ سنانے کے لیے 180 دن ہیں۔
دوسری جانب، صدر کی غیر موجودگی میں وزیراعظم ہاں ڈک سو جنوبی کوریا کے قائمقام صدر کے فرائض سرانجام دیں گے۔
اس موقع پر سیئول کے ایک پولیس اہلکار نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ صدر یون سک یول کو برطرف کرنے کے لیے تقریباً 2 لاکھ افراد نے پارلیمنٹ کے باہر جمع ہو کر احتجاج کیا تھا۔
دوسری جانب، 30 ہزار افراد نے یون کی حمایت میں ریلی نکالی، اس دوران جنوبی کوریا اور امریکا کے جھنڈے لہرائے گئے۔
مواخذے کی تحریک سے قبل یون کے ایک سپورٹر نے ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا، ان کے ہر اقدام کی حمایت کرتا ہوں‘۔
واضح رہے کہ صدر یون سک یول کی جانب سے چار دہائیوں بعد پہلی بار مارشل لا جیسے اقدام نے جنوبی کوریا کی قوم کو ماضی کی دردناک یادوں میں دھکیل دیا تھا۔
صدر یون کا مارشل لا لگاتے وقت کہنا تھا کہ ’اس اقدام کا مقصد جنوبی کوریا کو ایٹمی قوت کے حامل دشمن ملک شمالی کوریا کے جارحانہ اقدامات سے بچانا اور ریاست مخالف عناصر کی بیخ کنی کرنا ہے۔‘
صدر کے اس اعلان کے بعد سیکیورٹی فورسز نے قومی اسمبلی کو سیل کر دیا تھا اور تقریباً 300 فوجیوں نے بظاہر قانون سازوں کو پارلیمان کے اندر داخل ہونے سے روکنے کے لیے عمارت کو تالا لگانے کی کوشش کی تھی۔
تاہم پارلیمنٹ کے عملے نے دروازوں کے پیچھے صوفے اور آگ بجھانے کے آلات رکھ کر فوجیوں کو داخلے سے روکنے کی کوشش کی تھی جبکہ رکاوٹیں عبور کرکے بڑی تعداد میں ارکان بھی پارلیمنٹ بھی پہنچ گئے تھے جہاں انہوں نے ووٹنگ کے ذریعے مارشل لا ختم کرنے کا بل منظور کیا تھا۔