پی ٹی آئی احتجاج: اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت سے ڈسچارج درجنوں ملزمان دوبارہ گرفتار
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت سے 26 نومبر کو (پاکستان تحریک انصاف) پی ٹی آئی کے احتجاج کیس میں ڈسچارج کیے گئے درجنوں ملزمان کو پولیس نے دوبارہ گرفتار کرلیا۔
ڈان نیوز کے مطابق شناخت پریڈ پر بھیجے گئے ملزمان کو ڈسچارج کرنے کا حکم انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے دیا تھا، جج نے دوبارہ گرفتاری پر پولیس کو ہتھکڑیاں لگانے کا انتباہ دیا تھا۔
تاہم ڈسچارج ہونے والے شہریوں کو پولیس نے دوبارہ گرفتار کر لیا، ملزمان کے وکیل انصر کیانی نے ڈسچارج ہونے والے ملزمان کی دوبارہ گرفتاری پر عدالت کو آگاہ کر دیا۔
پولیس نے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کا حکم ہوا میں اڑا دیا اور جوڈیشل کمپلیکس کے باہر بھارت نفری تعینات کردی۔
جوڈیشل کمپلیکس کے گیٹ پر تعینات پولیس اہلکاروں نے میڈیا کے داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی جبکہ وہاں کھڑے صحافیوں کو پیچھے دھکیل دیا۔
اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) اشفاق وڑائچ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ یہاں سے میڈیا پیچھے چلا جائے ورنہ انہیں گرفتار کرلیا جائے گا، جو میڈیا والا بات نہیں مانتا فوری طور پر گرفتار کر کے اس پر احتجاج کا کیس ڈال دیا جائے۔
بعد ازاں انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین عدالت سے روانہ ہو گئے۔
پی ٹی آئی کے وکلا نے کہا ہے کہ پولیس نے تمام ورکرز کو دوبارہ گرفتار کرلیا، ورکرز کو جوڈیشل کمپلیکس کے اندر سے گرفتار کیا گیا۔
دریں اثنا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل فتح اللہ برکی نے جوڈیشل کمپلیکس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کمپلیکس کی راہداری میں تقریباً 100 ڈسچارج مظاہرین موجود ہیں، انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کو پولیس کے رویے سے آگاہ کردیا ہے، حکم نامے کا انتظار ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس تحریک انصاف کارکنان کو دوبارہ گرفتار کر رہی ہے، جج نے کہا ہے کہ وارنٹ ہیں تو گرفتار کریں لیکن کئی کارکن کسی مقدمہ میں نامزد نہیں، پولیس عدالتی فیصلے کی حکم عدولی نہ کرے ورنہ توہین عدالت کی درخواست دائر کریں گے۔
خیال رہے کہ شناخت پریڈ پر جیل بھیجے گئے 100 سے زائد مظاہرین کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تھا، جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے 81 ملزمان کو مقدمات سے ڈسچارج کیا تھا۔
عدالت نے تھانہ کھنہ کے 54، تھانہ آئی نائن کے 16 اور تھانہ کوہسار کے 11 ملزمان کو ڈسچارج کیا جبکہ عدالت نے تھانہ کوہسار کے 48 ملزمان کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اسلام آباد میں احتجاج کے بعد وفاقی دارالحکومت اور راولپنڈی کے مختلف تھانوں میں پارٹی کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق خاتون اول بشریٰ بی بی، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور و دیگر پارٹی رہنماؤں اور سیکروں کارکنان کے خلاف دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت متعدد مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے 24 نومبر کے احتجاج اور پرتشدد مظاہروں پر مختلف تھانوں میں مقدمات انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کیے گئے۔
مظاہرین پر سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے، مجمع جمع کرکے شاہراہوں کو بند کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کے لیے 24 نومبر کو بانی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے پشاور سے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تھا اور 25 نومبر کی شب وہ اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے تھے تاہم اگلے روز اسلام آباد میں داخلے کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پی ٹی آئی کے حامیوں کی جھڑپ کے نتیجے میں متعدد افراد، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
26 نومبر کی شب بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور اور عمر ایوب مارچ کے شرکا کو چھوڑ کر ہری پور کے راستے مانسہرہ چلے گئے تھے، مارچ کے شرکا بھی واپس اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔
اس کے بعد وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا کے علاوہ سردار لطیف کھوسہ نے فورسز کے اہلکاروں کی ’مبینہ‘ فائرنگ سے ’متعدد ہلاکتوں‘ کا دعویٰ کیا تھا، تاہم وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے ان دعوئوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کچھ ہوا ہے تو ’ثبوت کہاں ہیں؟‘