ڈالر کی غیرقانونی تجارت کےخلاف اقدامات سے پاکستان کی ترسیلات زر بڑھ گئیں، بلومبرگ
بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق ڈالر کی غیر قانونی تجارت کے خلاف پاکستان کے اقدامات سے ترسیلات زر میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
رپورٹ میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ترسیلات زر گزشتہ سال کے مقابلے میں نومبر تک 5 ماہ کے دوران 34 فیصد اضافے کے ساتھ 14.8 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔
رواں سال روپے کی قدر میں 2 فیصد اضافہ ہوا اور اسے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے قرض پروگرام اور ترسیلات زر کی وجہ سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کی کرنسیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
اس سے قبل وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بھی ترسیلات زر میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ رواں مالی سال ترسیلات زر کے ذریعے 35 ارب ڈالر کی آمد متوقع ہے۔
جولائی تا اکتوبر پاکستان کو 11 ارب 85 کروڑ ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں، جو اوسطاً 2 ارب 96 کروڑ 20 لاکھ ڈالر ماہانہ ہیں، ملک کو اکتوبر میں 3.052 ارب ڈالر اور ستمبر میں 2.859 ارب ڈالر موصول ہوئے، جو ترسیلات زر میں اضافے کا رجحان ظاہر کرتے ہیں۔
مالی سال 2024 میں ملک کو 30.25 ارب ڈالر موصول ہوئے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 13.3 فیصد کم ہے۔
لندن میں فچ سلوشنز کمپنی ’بی ایم آئی‘ میں ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے ماہر اقتصادیات جان ایشبورن نے بلومبرگ کو بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ کرنسی اصلاحات سے ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے اور قانونی طریقے سے زیادہ ترسیلات پاکستان بھیجی جارہی ہیں۔
مالیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ ترسیلات زر میں اضافہ شرح تبادلہ میں استحکام اور کرنسیوں کی غیر قانونی تجارت کے خلاف کریک ڈاؤن کا نتیجہ ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملک آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق سخت معاشی اقدامات پر عمل درآمد کر رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈالر کی غیر قانونی ٹریڈنگ کے خلاف کریک ڈاؤن سے کچھ ٹرانزیکشنز کو سرکاری بینکنگ چینلز پر منتقل کرنے میں مدد مل سکتی ہے، جس کی وجہ سے نومبر کے آخر تک زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 12 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے جو مارچ 2022 کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔
ایف آئی اے نے ایک سال قبل شروع کی گئی کوششوں میں منی چینجرز کے دفاتر پر چھاپے مارے، لوگوں کو گرفتار کیا اور منی ایکسچینج میں سادہ کپڑوں میں سیکیورٹی اہلکاروں کو بھی تعینات کیا۔
دریں اثنا ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچا کا اندازہ ہے کہ گزشتہ 2 سال میں غیر قانونی ڈالر مارکیٹ کا حجم کم از کم 20 فیصد گر گیا ہے، جس میں 10 ارب ڈالر باضابطہ بینکنگ چینلز میں گئے ہیں۔