• KHI: Zuhr 12:29pm Asr 4:11pm
  • LHR: Zuhr 11:59am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 12:05pm Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:29pm Asr 4:11pm
  • LHR: Zuhr 11:59am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 12:05pm Asr 3:24pm

سیاستدان ہوش کے ناخن لیں، کوئی ہے جو چاہتا ہے کہ یہ لڑائیاں ختم نہ ہوں، علی محمد خان

شائع December 17, 2024
پی ٹی آئی کے رکن علی محمد خان قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔فائل فوٹو: اسکرین شاٹ
پی ٹی آئی کے رکن علی محمد خان قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔فائل فوٹو: اسکرین شاٹ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی علی محمد خان نے کہا ہے کہ سیاستدان ہوش کے ناخن لیں، کوئی ہے جو چاہتا ہے کہ یہ لڑائیاں ختم نہ ہوں۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے پی ٹی آئی رکن نے کہا کہ آدھا ملک گنواکر ، آرمی پبلک اسکول کے بچوں کے خون سے زمین رنگواکر بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہیں لیے، 16 دسمبر پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، ملک دو لخت ہونے پر اسٹیلشمنٹ سیاستدانوں پر الزام لگاتی ہے اور سیاستدان جنرل یحییٰ پر الزام لگاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج ہم جب یہاں گفت وشنید کی بات کررہے ہیں، 1400 سال قبل قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماچکے ہیں کہ تمہارے درمیان کوئی مسئلہ ہو تو شوریٰ کرلو، چاہتا ہوں تمام ارکان اسمبلی مجھے دل سے سن لیں۔

انہوں نے شعر پڑھا کہ

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش

میں زہرِ ہَلاہِل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

پی ٹی آئی رکن نے کہا کہ یہ ایسا ملک ہے، جس میں ایک وزیراعظم پھانسی چڑھ گیا، آزادی کے بعد ایک وزیراعظم قتل ہوا، جس کا خون آج بھی ہوا میں اڑ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی سیاستدان ہو، وہ کسی کو گولی نہیں مارتا، اس کی خوبی یہ ہے وہ بغیر گولی چلائے بات چیت کرکے مسائل حل کرتا ہے، وہ پیچھے قائداعظم کی تصویر لگی ہے، ایک سیاسی کارکن نے قلم کی طاقت سے پاکستان بنایا، یہ ملک گھوڑے پر بیٹھے کسی بندوق والے نے ہمیں نہیں دیا تھا۔

علی محمد خان نے سوال اٹھایا کہ ڈی چوک میں مرنے والوں کو کیا کسی نے بھارت سے آکر مارا؟ میں ایبٹ آباد ڈویژن میں پی ٹی آئی کے شہدا کے گھر گیا ہوں، آپ چاہیں تو میرے ساتھ چلیں، ہم رینجرز کے شہدا کے گھر بھی چلتے ہیں، وہ بھی میرا شہید ہے، سب اس پاکستان کے بیٹے ہیں، جب جسم سے گولی آر پار نہیں جاتی، اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے ’اسنائپر شاٹ‘۔

انہوں نے کہا کہ آخر یہ مرنے والے بھی تو کسی کے بلاول، قاسم اور سلیمان تھے، آرمی پبلک اسکول میں تو دہشت گرد آئے تھے، یہاں کس نے لوگوں کو مارا ؟ وہاں گولیاں چل رہی تھیں، یہاں ہمیں کہا جاتا ہے کہ کوئی نہیں مرا؟ پارلیمنٹ پر کلمہ لکھا ہے، اس کے سامنے گولیاں چل رہی تھیں۔

علی محمد خان کا کہنا تھا کہ لاہور کی تاریخ میں سب سے زیادہ لوگ دو بار نکلے، ایک بار بینظیر بھٹو جب جلاوطنی ختم کرکے آئیں، یا اکتوبر 2011 میں عمران خان نے جب جلسہ کیا۔

پی ٹی آئی رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ میرے 10 سال اس اسمبلی میں گزر گئے، ایسا لگتا ہے ہم گھروں سے یہاں لڑنے کے لیے آتے ہیں، میرا سوال جمہوریت کے لیے ہے، جیسے ہی کیمرے بند ہوتے ہیں، ہم ایک ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے ہیں، ایک دوسرے کی شادیوں میں جاتے ہیں، کیا یہ منافقت نہیں ہے؟ ہم عوام کے لیے ایک کیوں نہیں ہوسکتے ؟

ان کا کہنا تھا کہ عزت اور ذلت، نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان کے ہاتھ میں نہیں، یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے، آئیں حق کی بات کہنے کی ہمت کریں۔

انہوں نے کہا کہ رانا ثنا اللہ نے بہت اچھی بات کی کہ دونوں طرف کے شہدا کے لیے اناللہ وانا الیہ راجعون، پڑھنا چاہیے، میں پڑھ چکا ہوں، لیکن یہ دونوں طرف کے نہیں، ایک ہی طرف کے شہدا ہیں، اپریل میں جس دن اس ایوان میں حکومت کے 170 ارکان تھے اور میں اکیلا تھا، مجھ سے پوچھا گیا کہ تمہیں ڈر نہیں لگا؟ تو میں نے جواب دیا کہ وہ میرے دشمن نہیں بلکہ محض سیاسی مخالف ہی ہیں، کس سے ڈرتا؟

علی محمد خان نے کہا کہ میں دل کے درد سے کہہ رہا ہوں کہ عمران خان کی رہائی کے لیے نکل کر مرنے والوں کو یقین تھا کہ ہم گرفتار ہوجائیں گے، سزائیں ہوجائیں گی لیکن جو گولی ہم نے دشمنوں کو مارنے کے لیے آپ کو دی ہے، وہ ہمارے سینے سے کبھی آر پار نہیں ہوگی، ان شہدا کی صرف جان نہیں گئی بلکہ ان کا مان بھی ٹوٹا ہے، کیوں کہ یہ گولی اس لیے آپ کو دی گئی کہ جو لوگ سری نگر میں مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں، ان کے سینوں کو چھلنی کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان مشرقی پاکستان والوں (بنگالیوں) نے بنایا تھا، کیا ہوجاتا جب وہ جیت گئے تھے اور آپ انہیں اقتدار دے دیتے، غیر ملکی سازش تو ہوئی، جب ہم نے بنگالیوں کو حق نہیں دیا تو بھارت نے مکتی باہنی کے ذریعے سازش کی، لیکن یہ بنگالی پہلے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے تھے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ لیگیسی ایسے ہی نہیں بنتی، قربانیوں سے بنتی ہے، ہمیں خان عبدالغفار خان، ولی خان بابا، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی لیگیسی کا اعتراف ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے بھی جواں مردی سے جیل کاٹی، قربانیوں سے نہیں ڈرتے، الحمدللہ ہمارے ہاتھ پر کسی کا خون نہیں، ہم قاتل نہیں ہیں، ہمیں ڈی چوک کے شہدا کا انصاف چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان سے جیل میں ملاقات کے دوران پوچھا کہ کیا آپ آج بھی ’فتح مکہ ماڈل‘ پر کھڑے ہیں، فتح مکہ ماڈل کیا تھا، یعنی فتح کے بعد عام معافی، عام معافی سے مراد سیاسی انتقام سے گریز ہے، کیوں کہ کسی کو قتل کرنے والوں سے قصاص لیا جاتا ہے، یہ الگ معاملہ ہے، عمران خان نے یہ بھی کہا کہ مغرب نے اسلام کا ٹرتھ اینڈ ری کنسیلیشن سسٹم اپناکر ترقی کرلی اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔

علی محمد خان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی سے صدر مملکت ہے، ان کے گورنرز بیٹھے ہیں، وفاق میں اتحادی ہے، سندھ میں ان کی حکومت ہے، پھر بھی یہ عجیب باتیں کرتے ہیں، آئیں ہمارے ساتھ بیٹھیں اپوزیشن میں، جینوئن اپوزیشن کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح آپ کی لیڈر شپ کے لیے آپ کے کارکنوں نے خود کو آگ لگائی، اسی طرح ہمارے ورکر نے جان دیتے ہوئے اپنے خون سے لکھا ’آئی لو، قیدی نمبر 804‘۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ نواز شریف کا گلہ درست ہے کہ جب انہیں لوگ کہتے تھے کہ قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں، لیکن جب مشرف کا ہتھوڑا چلا اور ظلم ہوا تو کوئی ساتھ نہیں تھا، چند لوگ ساتھ تھے، جاوید ہاشمی تھا جسے آپ نے بعد میں اون نہیں کیا۔

علی محمد خان نے کہا کہ مجھے گرفتار کرکے میرے خلاف سیکرٹ ایکٹ اور بغاوت کا الزام لگایا گیا، کیا وہ علی محمد غدار ہے جس کے دادا اور نانا نے پاکستان بنایا؟ آپ نے مجھے غدار بنانے کی کوشش کی تو مردان نے ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ دیکر مجھے تیسری بار ایوان میں بھیج دیا۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول بھارت کا ہمارے منہ پر تھپڑ تھا کہ ہم تمہارے ملک کو دو ٹکڑے بھی کرسکتے ہیں اور گھر میں گھس کر تمہارے بچوں کو بھی مارسکتے ہیں اور تم لوگ ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے میں لگے رہو۔

انہوں نے کہا کہ ہم آپس میں لڑکر جیت بھی گئے تو کیا فائدہ ہوگا؟ لاش تو پاکستانی کی ہی گرے گی ناں؟، سیاسی لوگو! اپنی منجی تلے ڈانگ پھیرو، دیکھو کون چاہتا ہے کہ ہم لڑتے رہیں، 25 نومبر کو میں پولیس کے ناکے توڑتا ہوا، چھپتا چھپاتا، عمران خان سے ملنے اڈیالہ گیا لیکن ہمیں نہیں ملنے دیا گیا، کیوں کہ کوئی ہے جو نہیں چاہتا کہ یہ لڑائی ختم ہو۔

علی محمد خان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو اپنی والدہ کی گود میں باپ سے ملنے جیل کے باہر کھڑے ہوتے تھے، کئی دہائیاں گزر گئیں، ہائبرڈ رجیم چینج کا سلسلہ اور یہ لڑائیاں ختم نہیں ہورہیں، ہوش کے ناخن لیکر اب یہ سب ختم کرنا ہوگا۔

1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2024
کارٹون : 17 دسمبر 2024