خیبرپختونخوا کا قرض ایک سال میں 149 ارب روپے بڑھ کر 680 ارب روپے تک پہنچ گیا
خیبر پختونخوا (کے پی) کا قرضوں کا حجم ایک سال میں 28 فیصد (149 ارب روپے) سے زائد بڑھ کر تقریباً 680 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، جس کے نتیجے میں معاشی اشاریے خراب ہو گئے اور صوبے کی ترقی کی صلاحیت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ حکومت خیبر پختونخوا کے ساتھ کام کرنے والے بین الاقوامی قرض دہندگان نے خبردار کیا ہے کہ اگر اصلاحی اقدامات متعارف نہ کروائے گئے تو مارچ 2025 کے بعد بھی قرضوں کی ادائیگی کے معاملات سمیت سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ صوبے کی حکومتی قیادت اپنی مالیاتی ٹیم کے مشورے پر کام کرنے، دہشت گردی کے واقعات اور بےامنی سے متاثر صوبے کی آبادی کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں مدد دینے کے بجائے سیاسی مسائل، بالخصوص وفاقی دارالحکومت میں بار بار نکالی جانے والی ریلیوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
خیبرپختونخوا کے محکمہ خزانہ نے اپنے تازہ ترین قرضوں کے اعداد و شمار کے بلیٹن میں اعتراف کیا کہ 30 جون 2024 تک واجب الادا قرضوں کا پورٹ فولیو بڑھ کر 679.547 ارب روپے ہو گیا، جو 30 جون 2023 تک 530.723 ارب روپے کی بقایا رقم سے 28.04 فیصد (تقریباً 149 ارب روپے) اضافہ ہے۔
اس بگاڑ کی وجہ دو اہم عوامل ہیں، جن میں خالص وصولیوں میں 14.31 فیصد اضافہ (75 ارب 90 کروڑ 68 لاکھ روپے) ہوا اور شرح تبادلہ کی شرح بڑھنے سے روپے کی قدر اس عرصے میں 13.73 فیصد گرگئی۔
باخبر ذرائع نے بتایا کہ بین الاقوامی قرض دہندگان نے حکومت خیبر پختونخوا کے لیے پریشانی کا اشارہ دیا ہے، پاکستان کی تیسری سب سے بڑی صوبائی معیشت ہونے کے باوجود صوبے کی معاشی نمو ناقص رہی ہے۔
بین الاقوامی قرض دہندگان کی جانب سے اٹھائے جانے والے خدشات میں کمزور عوامی مالیاتی انتظام، محدود آمدنی کی پیداوار، وفاقی منتقلیوں پر زیادہ انحصار اور قرضوں کی ادائیگی کے اخراجات میں اضافے جیسے عوامل شامل ہیں۔
ایک ماہر اقتصادیات نے صوبائی حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ان خدشات نے عالمی قرض دہندگان کو صوبائی حکومت کے ساتھ معاملات کرتے وقت احتیاط کا اظہار کرنے پر مجبور کیا ہے۔
صوبائی حکومت کے بلیٹن میں وضاحت کی گئی ہے کہ جولائی 2023 سے جون 2024 کے درمیان غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں 13.73 فیصد (مطلق طور پر 72 ارب 80 کروڑ 68 لاکھ روپے) کی کمی واقع ہوئی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ نئے قرضے لیے بغیر بھی صوبے کے موجودہ غیر ملکی قرضوں کو ادا کرنے کے لیے مزید پاکستانی روپے درکار تھے، جس سے مجموعی طور پر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا۔
دوسری بات یہ ہے کہ مختلف منصوبوں اور پروگراموں کے لیے بین الاقوامی قرض دہندگان کے ساتھ پہلے سے دستخط شدہ قرضوں کے معاہدوں سے خالص قرضوں کی تقسیم کی وجہ سے قرضوں کے اسٹاک میں 14.31 فیصد کا اضافہ ہوا جو 75 ارب 90 کروڑ 68 لاکھ روپے روپے تھا۔
اس وقت صوبے نے بین الاقوامی قرض دہندگان سے مختلف منصوبوں کے لیے 107 قرضے لے رکھے ہیں۔
ان میں سے 32 قرضے اب بھی فعال ہیں، جس کا مطلب ہے کہ قرضے رعایتی مدت میں ہیں، جس سے صوبے کو ان منصوبوں کے لیے فنڈز نکالنے کا سلسلہ جاری رکھنے کی اجازت ملتی ہے۔
دیگر 75 قرضے بند ہوچکے ہیں جس کا مطلب ہے کہ رعایتی مدت ختم ہو چکی ہے، مزید فنڈز واپس نہیں لیے جا سکتے اور صوبے نے اصل رقم واپس کرنا شروع کر دی ہے۔
جولائی 2023 سے جون 2024 تک خیبر پختونخوا نے مجموعی طور پر 38 ارب 70 کروڑ 34 لاکھ روپے کے قرضوں کی ادائیگی کی، اس میں اصل رقم کی ادائیگی کے لیے 24 ارب 70 کروڑ 82 لاکھ روپے اور سود کی مد میں 13 ارب 90 کروڑ 51 لاکھ روپے شامل ہیں۔
مالی سال 25-2024 کے لیے صوبائی حکومت نے قرضوں کی ادائیگی کے لیے 67 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا ہے، جس میں 40 ارب روپے اصل ادائیگیوں اور 27 ارب روپے سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
مزید برآں، مالی سال 24 کے دوران، 16 اکتوبر 2023 کو ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کے ساتھ 8 کروڑ ڈالر (276.8356 کی شرح تبادلہ کی بنیاد پر 22 ارب 10 کروڑ 47 لاکھ روپے) کے فوڈ سیکیورٹی پروجیکٹ کے لیے صرف ایک قرض پر دستخط کیے گئے تھے۔
قرض کی کُل مدت 25 سال ہے، جس میں 5 سال کی رعایتی مدت اور اس کے بعد 20 سال کی ادائیگی کی مدت شامل ہے۔
صوبائی وزارت خزانہ کے بلیٹن سے پتا چلتا ہے کہ جون 2024 تک نہ صرف قرضوں کا اسٹاک 149 ارب روپے (28 فیصد) بڑھ کر 680 ارب روپے تک پہنچ گیا، بلکہ قرضوں کی ادائیگی بھی 40 فیصد سے زیادہ بڑھ کر 27 ارب 60 کروڑ 43 لاکھ روپے سے بڑھ کر 38 ارب 73 کروڑ روپے ہوگئی۔
اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اصل ادائیگیوں میں 18 فیصد اضافہ ہوا جبکہ سود کی ادائیگیاں تقریباً 110 فیصد اضافے کے ساتھ 13 ارب 95 کروڑ روپے تک پہنچ گئیں۔
اس میں سے 15 قرضوں پر متغیر سود، مالی سال 24-2023 میں 9.6 ارب روپے رہا جبکہ 92 قرضوں پر مقررہ شرح سود 4.3 ارب روپے تھی۔