اسرائیل کی غزہ پر بمباری سے مزید 40 فلسطینی شہید، جنگ بندی اتوار سے شروع ہوگی
غزہ پر اسرائیلی فورسز کے حملوں میں مزید 40 فلسطینی شہید ہوگئے، اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی پر عمل درآمد اتوار سے شروع ہوگا۔
قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی افواج غزہ کی پٹی میں اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں معاہدے کے اعلان کے بعد سے علاقے میں کم از کم 40 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
فلسطین کے محکمہ شہری دفاع نے کہا ہے کہ اس کے عملے نے غزہ شہر کے مغرب میں رمل کے پڑوس میں خلیفہ خاندان کے گھر کے ملبے سے 5 لاشیں نکالی ہیں۔
اس حملے میں 10 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں، جو حالیہ گھنٹوں کے دوران غزہ شہر کو ہلا کر رکھ دینے والا تازہ ترین مہلک اسرائیلی حملہ ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے ایک بیان میں حماس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی سے متعلق ’مفاہمت سے پیچھے ہٹنے‘ کی کوشش کر رہی ہے۔
بینجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دیگر چیزوں کے علاوہ، ایک واضح شق کے برعکس جو اسرائیل کو دہشت گردی کی علامتوں کے طور پر بڑے پیمانے پر قاتلوں کی رہائی کو ویٹو کرنے کا حق دیتی ہے، حماس ان دہشت گردوں کی شناخت کو ڈکٹیٹ کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے مذاکراتی ٹیم کو ہدایت کی کہ وہ ان مفاہمتوں کو برقرار رکھیں جن پر اتفاق کیا گیا تھا، اور حماس کی جانب سے آخری لمحات میں بلیک میل کرنے کی کوششوں کو یکسر مسترد کیا جائے۔
قبل ازیں غزہ میں جنگ بندی کے اعلان پر فلسطینیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، خان یونس کے علاقے میں فلسطینی نوجوان اور بچے سڑکوں پر نکل آئے، غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل شروع ہوگئی۔
صہیونی فوج کی تباہ کن بمباری میں اپنوں کی جدائی سے غم زدہ اور زخموں سے چُور مظلوم فلسطینی شہریوں نے آنسوؤں کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کا خیرمقدم کیا۔
واضح رہے کہ قطر، مصر اور امریکا کی ثالثی میں غزہ جنگ بندی معاہدے پراتفاق کیا جاچکا ہے، یہ جنگ بندی اتوار سے شروع ہوگی۔
گزشتہ شب قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے کہا تھا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ مشترکہ کوششوں کی کامیابی اور اس حقیقت کا بتاتے ہوئے بہت خوشی ہے کہ غزہ میں فریقین قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے پر پہنچ گئے ہیں اور فریقین نے مستقل جنگ بندی کی امید پر معاہدہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلا مرحلہ 42 دن تک جاری رہے گا، اس میں جنگ بندی اور آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی افواج کا انخلا شامل ہے۔
غزہ جنگ بندی معاہدے کے اہم نکات کیا ہیں؟
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل اور حماس کے معاہدے میں 6 ہفتوں کی ابتدائی جنگ بندی کا خاکہ پیش کیا گیا تھا، اس کے تحت وسطی غزہ سے اسرائیلی افواج کا بتدریج انخلا اور شمالی غزہ میں بے گھر فلسطینیوں کی واپسی شامل ہے۔
معاہدے کے تحت غزہ میں ہر روز انسانی امداد کے 600 ٹرکس کی اجازت دی جائے گی، ان میں سے 50 ایندھن لے کر جائیں گے اور 300 ٹرک شمال کے لیے مختص کیے جائیں گے۔
معاہدے کے تحت حماس تمام خواتین (فوجی اور عام شہری) بچوں، اور 50 سال سے زیادہ عمر کے 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی۔
حماس 6 ہفتوں کے دوران یرغمالیوں کو رہا کرے گی، اس دوران ہر ہفتے 3 یرغمالی رہا کیے جائیں گے اور بچ جانے والی یرغمالی اس مدت کے اختتام سے پہلے چھوڑ دیے جائیں گے۔
اسرائیل ہر یرغمال یہودی کے بدلے 30 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا اور ہر اسرائیلی خاتون فوجی کی رہائی کے بدلے 50 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
تمام زندہ یرغمالیوں کو پہلے رہا کیا جائے گا اور اس کے بعد مردہ یرغمالیوں کی باقیات حوالے کردی جائیں گی۔
معاہدے پر عمل درآمد کی ضمانت قطر، مصر اور امریکا نے دی ہے۔
قبل ازیں واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل کے تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ ایران کی حمایت یافتہ عسکری تنظیم حزب اللہ سب کچھ گنوانے کے بعد ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ حزب اللہ کے خاتمے کے بعد ایران کی اہم سپلائی لائن تباہ ہوگئی، خطے میں امن، استحکام کے لیے ایران کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی پر مہر لگانا حماس پر منحصر ہے، جب کہ حتمی تجویز قطر میں مذاکرات کی میز پر ہے، گیند اب حماس کے کورٹ میں ہے۔
انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ اگر حماس قبول کر لیتا ہے تو یہ معاہدہ طے پانے اور عمل درآمد کے لیے تیار ہے۔
انٹونی بلنکن کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا تھا، جب کہ اس سے ایک روز قبل قطر نے اسرائیل اور حماس کو غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے معاہدے کا حتمی مسودہ پیش کر دیا تھا۔
مذاکرات سے آگاہ ایک عہدیدار نے بتایا تھا کہ امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی نے بھی بات چیت میں شرکت کی تھی، جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا مسودہ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں طے کیا گیا تھا، جس میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں موساد اور شین بیٹ کے سربراہان، قطر کے وزیر اعظم اور نامزد امریکی سفیر اسٹیو وٹکوف بھی شامل تھے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ سبکدوش ہونے والی امریکی انتظامیہ کے عہدیداروں نے بھی بات چیت میں شرکت کی ہے۔
عہدیدار نے کہا تھاکہ معاہدے تک پہنچنے کے لیے اگلے 24 گھنٹے اہم ہوں گے، اسرائیل کے ’کان ریڈیو‘ نے ایک اسرائیلی عہدیدار کے حوالے سے پیر کو خبر دی تھی کہ قطر میں اسرائیلی اور حماس کے وفود کو ایک مسودہ موصول ہوا ہے اور اسرائیلی وفد نے اسرائیلی رہنماؤں کو بریفنگ دی ہے۔
ایک سینئر اسرائیلی عہدیدار نے کہا تھا کہ اگر حماس کسی تجویز کا جواب دیتی ہے تو چند دنوں میں ایک معاہدے پر دستخط کیے جاسکتے ہیں۔
مذاکرات سے وابستہ ایک فلسطینی عہدیدار نے کہا تھا کہ دوحہ سے ملنے والی معلومات ’بہت امید افزا‘ ہیں، ’خلا کو کم کیا جا رہا ہے اور اگر آخر تک سب کچھ ٹھیک رہا تو معاہدے کی طرف ایک بڑی پیش قدمی ہے۔‘
امریکا، قطر اور مصر غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے ایک سال سے زیادہ عرصے سے مذاکرات کی کامیابی کے لیے کوششیں کر رہے تھے۔
ٹرمپ کی 20 جنوری کی حلف برداری کو اب خطے میں ایک آخری مہلت کے طور پر دیکھا جا رہا تھا، امریکا کے نومنتخب صدر نے کہا تھا کہ ان کے عہدہ سنبھالنے تک حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا گیا تو اس کی قیمت چکانی پڑے گی، جب کہ صدر جو بائیڈن بھی اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے قبل کسی معاہدے کے لیے سخت کوششیں کر رہے تھے۔
عہدیدار نے بتایا تھا کہ مصر کی جنرل انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ حسن محمود رشاد بھی مذاکرات میں شرکت کے لیے قطر کے دارالحکومت میں موجود تھے۔
ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نومبر کے اواخر سے متعدد بار قطر اور اسرائیل کا دورہ کر چکے تھے، وہ جمعہ کو دوحہ میں تھے اور دوحہ واپسی سے قبل ہفتے کے روز وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے لیے اسرائیل گئے تھے۔
غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے جاری اسرائیلی حملوں میں 46 ہزار 600 فلسطینی شہید، جبکہ ایک لاکھ 9 ہزار 700 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، کئی لاکھ بے گھر، انفرا اسٹرکچر مکمل تباہ ہوچکا، ہسپتال، اسکولوں کی عمارتیں یا کھیلوں کے گراؤنڈز بھی مکمل ختم ہوچکے، لوگ شدید سردی میں کھلے آسمان تلے کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں، کئی بچے سخت سردی کے باعث زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔