تارکین وطن، شہری حقوق کے گروپوں کا ٹرمپ کے احکامات کیخلاف امریکی عدالتوں سے رجوع
تارکین وطن اور شہری حقوق کے گروپوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد دستخط کیے گئے انتظامی احکامات کو چیلنج کرتے ہوئے کئی مقدمات دائر کر دیے، جن میں امریکا میں پیدائشی شہریت کو واپس لینے کی کوشش کا حکم بھی شامل ہے۔
ڈان اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ مقدمات پیر کی رات میساچوسٹس اور نیو ہیمپشائر کی وفاقی عدالت میں دائر کیے گئے تھے، اس سے قبل کیلیفورنیا اور کنیکٹیکٹ سمیت کئی ریاستوں میں ڈیموکریٹک اٹارنی جنرلز کی جانب سے ممکنہ قانونی چیلنجز کی توقع ظاہر کی گئی تھی۔
وائٹ ہاؤس نے فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
ڈیموکریٹک قیادت والی ریاستوں اور وکالت کرنے والے گروپوں کی جانب سے ٹرمپ کے ایجنڈے کے دیگر پہلوؤں کو چیلنج کرتے ہوئے مزید مقدمات دائر کیے جانے کی توقع ہے، جن میں پہلے سے ہی ایلون مسک کی زیر قیادت حکومتی کارکردگی کے محکمے اور ریپبلکن کی جانب سے سرکاری ملازمین کے لیے ملازمتوں کے تحفظ کو کمزور کرنے کے حکم نامے پر مقدمات دائر کیے جا رہے ہیں۔
قانونی فرم نیو انگلینڈ کے مقدمات کا ہدف ٹرمپ کی جانب سے بڑے پیمانے پر امیگریشن کریک ڈاؤن کا ایک مرکزی حصہ تھا، جس میں وفاقی ایجنسیوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ غیر قانونی طور پر ملک میں موجود یا عارضی طور پر موجود ماؤں کو امریکا میں پیدا ہونے والے بچوں کے لیے امریکی شہریت کو تسلیم نہ کریں، جیسے ویزا ہولڈرز، اور جن کے والد شہری یا قانونی طور پر مستقل رہائشی نہیں ہیں۔
ٹرمپ کے عہدے کا حلف اٹھانے کے چند گھنٹوں بعد ہی امریکن سول لبرٹیز یونین اور دیگر گروپوں نے نیو ہیمپشائر کے شہر کونکورڈ میں اس حکم کو چیلنج کرتے ہوئے پہلا مقدمہ دائر کیا، ایک اور مقدمہ بوسٹن میں آدھی رات کے وقت ایک حاملہ ماں اور تارکین وطن کی تنظیموں کی طرف سے دائر کیا گیا تھا۔
ان ضلعی عدالتوں کے ججز کے کسی بھی فیصلے کا جائزہ بوسٹن میں قائم پہلی یو ایس سرکٹ کورٹ آف اپیلز کے ذریعے لیا جائے گا، جس کے 5 فعال وفاقی جج ڈیموکریٹک صدور کے مقرر کردہ ہیں، جو قومی سطح پر شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔
دونوں مقدمات میں دلیل دی گئی ہے کہ ایگزیکٹو آرڈر امریکی آئین کی 14ویں ترمیم کی شہریت کی شق میں درج حق کی خلاف ورزی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں پیدا ہونے والے کسی بھی شخص کو شہری سمجھا جاتا ہے۔
دونوں مقدمات میں امریکی سپریم کورٹ کے سنہ 1898 کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ غیر شہری والدین کے ہاں امریکا میں پیدا ہونے والے بچے امریکی شہریت کے حقدار ہیں۔
اس مقدمے میں نامزد درخواست گزاروں میں میساچوسٹس کی رہائشی او ڈوئے کے نام سے پہچانی جانے والی ایک خاتون بھی شامل ہے، جو عارضی طور پر محفوظ حیثیت کے تحت امریکا میں ہے اور مارچ میں بچے کو جنم دینے والی ہے۔
’عارضی طور پر محفوظ حیثیت‘ ان لوگوں کے لیے دستیاب ہے، جن کے آبائی ممالک نے قدرتی آفات، مسلح تنازعات یا دیگر غیر معمولی واقعات کا سامنا کیا ہے، اور اس وقت 17 ممالک کے 10 لاکھ سے زیادہ افراد کا احاطہ کرتی ہے۔
ٹرمپ کے دیگر ابتدائی انتظامی اقدامات کے پہلوؤں کو چیلنج کرنے والے کئی دیگر مقدمات بھی زیر التوا ہیں۔
نیشنل ٹریژری ایمپلائز یونین، جو 37 ایجنسیوں اور محکموں میں وفاقی حکومت کے ملازمین کی نمائندگی کرتی ہے، نے پیر کی رات ٹرمپ کے دستخط کردہ حکم نامے کو چیلنج کرتے ہوئے مقدمہ دائر کیا، جس کے تحت وفاقی ایجنسی کے ہزاروں ملازمین کو برطرف کرنا اور ان کی جگہ سیاسی وفاداروں کو تعینات کرنا آسان ہوگیا ہے۔