نئے امریکی وزیر خارجہ کی چین کا مقابلہ کرنے کیلئے بھارت کو ترجیح
ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کے بعد بھارت نے امریکا میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کے وزیر خارجہ نو منتخب وزیر خارجہ سے سب سے پہلے ملاقات کرنے والوں میں شامل ہیں اور نئے امریکی صدر اور نریندر مودی کے درمیان ملاقات کے لیے پہلے ہی کوششیں جاری ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ ڈاکٹر سبرامنیم جے شنکر نے امریکی وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے والے مارکو روبیو کے ساتھ پہلی دو طرفہ ملاقات کی اور مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی جہاں انہوں نے پاکستان کے ساتھ جلد ہی تجارت کی بحالی کے امکان کو مسترد کردیا۔
مارکو روبیو کے دور کا آغاز چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے پر واضح توجہ کے ساتھ ہوا ہے، جس میں ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں اسٹریٹجک انسداد توازن کے طور پر بھارت پر امریکی انحصار کو اجاگر کیا گیا ہے۔
اپنے عہدے کے پہلے دن مارکو روبیو کے کثیرالجہتی اجلاسوں میں کواڈ ممالک میں شامل بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کو ترجیح دی گئی، امریکی ذرائع ابلاغ نے ان اقدامات کو اس بات کے اشارے کے طور پر پیش کیا ہے کہ مارکو روبیو کی خارجہ پالیسی کے ایجنڈے کا مقصد ایشیا بحرالکاہل میں ایک اہم امریکی شراکت دار کے طور پر بھارت کے کردار کو بڑھانا ہے۔
تجزیہ کاروں کی پیش گوئی ہے کہ یہ تبدیلی پاکستان اور افغانستان کے ساتھ امریکی تعلقات پر اہم اثرات مرتب کرے گی۔
ٹرمپ۔مودی ملاقات
دریں اثنا، بھارتی اور امریکی سفارت کار بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان واشنگٹن میں فروری میں ہونے والی ملاقات کا انتظام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اگرچہ یہ یقینی نہیں ہے کہ دونوں رہنما فروری میں ملاقات کریں گے، لیکن ذرائع نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ اس سال کے آخر میں ایک دو طرفہ ملاقات ممکن ہے، جس میں کواڈ گروپ کے رہنماؤں کا سالانہ سربراہ اجلاس بھی شامل ہے، جس کی میزبانی بھارت کرے گا۔
بطور سینیٹر مارکو روبیو نے بھارت کو امریکا کا اہم اتحادی نامزد کرنے کے لیے قانون سازی کی حمایت کی تھی، جس کا موازنہ خاص طور پر ٹیکنالوجی کی منتقلی کے تناظر میں جاپان، اسرائیل اور نیٹو ممالک سے کیا جا سکتا ہے۔
تاہم روبیو کے بھارت کی جانب جھکاؤ نے پاکستان کے لیے تشویش پیدا کر دی ہے۔
واشنگٹن کے ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ ’اگلا وائٹ ہاؤس ممکنہ طور پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو نسبتاً کم ترجیح دے گا، حالانکہ اس سے اسلام آباد پر دباؤ بڑھ سکتا ہے کہ وہ بیجنگ کے ساتھ اپنے اتحاد کو نرم کرے‘۔
پاکستان سے تجارت
واشنگٹن میں واقع بھارتی سفارتخانے میں صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے بھارتی وزیرخارجہ سبرامنیم جئے شنکر نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارت پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی اور نہ ہی تجارت کی روانی بحال کرنے کی کوئی تجویز ہے۔
پاکستان کے ساتھ تجارت کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سبرامنیم جے شنکر نے کہا کہ گزشتہ سال کے بعد پاکستان کے ساتھ تجارت کے بارے میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے کوئی پہل سامنے آئی ہے۔
انہوں نے پڑوسیوں کے درمیان صورتحال کے بارے میں مزید دعویٰ کیا کہ ’ہم نے کبھی بھی تجارت نہیں روکی، بھارت کے ساتھ تجارت کو روکنے کے لیے جو بھی قدم اٹھایا گیا وہ 2019 میں پاکستان کی طرف سے اٹھایا گیا تھا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’شروع سے ہی ہماری تشویش یہ تھی کہ انہوں نے ہمیں (پسندیدہ ترین ریاست) کا درجہ کبھی نہیں دیا، حالانکہ ہم نے انہیں یہ درجہ دیا تھا‘۔
گزشتہ سال اگست میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے 2019 کے واقعات کے بعد سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کے ساتھ تجارت کا کوئی امکان نہیں ہے۔