کراچی: گارڈن سے مبینہ طور پر اغوا کیے گئے بچوں کے کیس میں نیا انکشاف
کراچی میں گزشتہ ہفتے گارڈن کے علاقے سے لاپتا ہونے والے 2 بچوں کے کیس نے بدھ کو ایک نیا رخ اختیار کرلیا، بچوں کے اغوا کے الزام کی زد میں آنے والے میاں بیوی بے قصور نکلے، موٹر سائیکل سوار جوڑا اپنے ہی بچوں کو کلینک لے کر جارہا تھا، ویڈیو میں نظر آنے والے لڑکے وہ نہیں تھے جو لاپتا ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق علیان اور علی رضا اپنے گھروں کے باہر کھیلتے ہوئے لاپتا ہوگئے تھے اور اس کے بعد سے ان کے ٹھکانے کا پتا نہیں چل سکا کیونکہ پولیس اس معاملے میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت کرنے میں ناکام رہی ہے۔
حکام نے اس سے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ایک سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی ہے جس میں ایک مرد اور ایک خاتون کو موٹر سائیکل پر بچوں کو لے جاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
تاہم بدھ کو ڈی آئی جی جنوبی سید اسد رضا نے ڈان کو بتایا کہ تفتیش کاروں نے ایک اور سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موٹر سائیکل پر سوار جوڑا دراصل اپنے بچوں کو کلینک لے جا رہا تھا اور انہیں ان کے ساتھ واپس آتے ہوئے بھی دیکھا گیا تھا۔
ڈی آئی جی نے واضح کیا کہ پہلی فوٹیج پر مبنی ابتدائی مفروضے کے برعکس، یہ وہ بچے نہیں تھے جو لاپتا ہوئے ہیں۔
اس کے بعد پولیس اور ریسکیو سروسز نے گارڈن اور آس پاس کے علاقوں میں سرچ آپریشن شروع کیا تاکہ لاپتا بچوں کے بارے میں مزید سراغ لگایا جاسکے۔
دریں اثنا، سٹی پولیس کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ گارڈن دھوبی گھاٹ اور ملحقہ علاقوں میں سرچ آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ ریسکیو 1122 اور ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکاروں نے بھی لیاری ندی میں سرچ آپریشن کیا جبکہ گھر گھر تلاشی بھی لی گئی۔
ایس ایس پی سٹی عارف عزیز نے لاپتا بچوں کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کی اور انہیں یقین دلایا کہ بچوں کو جلد بازیاب کرا لیا جائے گا، انہوں نے مزید کہا کہ کچھ مشتبہ افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ چند روز قبل گارڈن ویسٹ سے 5 سالہ علیان عرف علی اور 6 سالہ علی رضا لاپتا ہوگئے تھے۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل ( ڈی آئی جی) جنوبی سید اسد رضا نے بتایا تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج سے پتا چلا ہے کہ انہیں موٹر سائیکل پر سوار ایک مرد اور خاتون اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
گارڈن پولیس نے علیان کی والدہ زینب یونس کی مدعیت میں پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 364 اے (14 سال سے کم عمر بچے کا اغوا) اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام ایکٹ 2018 کی دفعہ 3 کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔
بعد ازاں، ایس ایس پی عارف عزیز کی سربراہی میں دونوں لاپتا بچوں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن کیا گیا، اس آپریشن میں گارڈن، نبی بخش، کالاکوٹ، چاکیواڑہ، کلری اور دیگر تھانوں کے ایس ایچ اوز سمیت لیڈی کانسٹیبلز اور انٹیلی جنس اسٹاف نے حصہ لیا۔
پولیس ترجمان کے مطابق سرچ آپریشن کے دوران 19 مشتبہ افراد کو حراست میں لے کر تھانے منتقل کردیا گیا جب کہ ملزمان سے پوچھ گچھ جاری ہے۔
ایس ایس پی عارف عزیز کا کہنا تھا ’کچھ شواہد حاصل کر لیے گئے ہیں جس سے پولیس کو بہت جلد بچوں کی بازیابی میں مدد ملنے کا امکان ہے۔‘
پولیس نے لاپتا بچوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے کو 3 لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کیا تھا۔
مقتول صارم کے والدین کا پولیس کی تحقیقات پر اظہار عدم اطمینان
دریں اثنا، نارتھ کراچی میں اغوا اور زیادتی کے بعد قتل کیے گئے 7 سالہ محمد صارم کے والدین اور اہل علاقہ نے احتجاجی مظاہرہ کیا، جس کی لاش لاپتا ہونے کے 11 روز بعد پانی کے زیر زمین ٹینک سے ملی تھی۔
غم زدہ خاندان اور مقامی افراد نے مرکزی سڑک پر دھرنا دیا جس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوگئی۔ مقتول کے والدین نے میڈیا کو بتایا کہ وہ پولیس کی تفتیش سے مطمئن نہیں ہیں، انہوں نے کہا کہ 7 جنوری کو صارم کی گمشدگی کے پہلے دن سے ہی تحقیقات کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ مشتبہ افراد کو پولیس نے حراست میں لیا ہے لیکن قاتلوں کی گرفتاری کے حوالے سے کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا، انہوں نے انصاف کی فراہمی تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
دریں اثنا پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزمان کے ڈی این اے نمونے لے کر جامعہ کراچی کی لیبارٹری بھیج دیے گئے ہیں۔
ڈی آئی جی غربی عرفان علی بلوچ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس معاملے کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے ایک ڈی ایس پی اور 3 پولیس انسپکٹرز پر مشتمل خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے، یہ ٹیم ملوث ملزمان کی جلد از جلد گرفتاری کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے گی، ٹیم کو روزانہ کی بنیاد پر پیشرفت رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔