امریکی عدالت نے ٹرمپ کے ’پیدائشی شہریت‘ ختم کرنے کے حکم پر عمل درآمد روک دیا
امریکی ریاست سیئٹل کے ایک وفاقی جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو امریکا میں خود کار طریقے سے پیدائشی شہریت کے حق کو محدود کرنے کے ایگزیکٹو آرڈر پر عمل درآمد سے روک دیا اور اسے ’صریح طور پر غیر آئینی‘ قرار دے دیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکی ڈسٹرکٹ جج جان کوفینور نے ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت والی 4 ریاستوں کے اصرار پر انتظامیہ کو حکم امتناع جاری کیا، جس پر ریپبلکن صدر نے اپنے عہدہ سنبھالنے کے پہلے دن پیر کو دستخط کیے تھے۔
جج نے ٹرمپ کے حکم کا دفاع کرنے والے امریکی محکمہ انصاف کے ایک وکیل کو بتایا کہ ’یہ واضح طور پر غیر آئینی حکم ہے۔‘
یہ حکم پہلے ہی 22 ریاستوں کے شہری حقوق کے گروپوں اور ڈیموکریٹک اٹارنی جنرلز کی جانب سے 5 مقدمات کا موضوع بن چکا ہے، جو اسے امریکی آئین کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔
واشنگٹن کے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل لین پولوزولا نے سیئٹل میں سماعت کے آغاز پر سینئر امریکی ڈسٹرکٹ جج جان کوفینور کو بتایا کہ اس حکم نامے کے تحت آج پیدا ہونے والے بچوں کو امریکی شہری نہیں مانا جاتا۔
واشنگٹن، ایریزونا، الینوائے اور اوریگون سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹک ریاستوں کے اٹارنی جنرلز کی جانب سے لین پولوزولا نے جج پر زور دیا کہ وہ انتظامیہ کو ٹرمپ کے امیگریشن کریک ڈاؤن کے اس اہم عنصر کو انجام دینے سے روکنے کے لیے عارضی حکم امتناع جاری کریں۔
صدارتی آرڈر چیلنج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا یہ اقدام آئین کی 14ویں ترمیم کی شہریت کی شق میں درج حق کی خلاف ورزی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ امریکا میں پیدا ہونے والا کوئی بھی شخص امریکی شہری ہے۔
ٹرمپ نے اپنے ایگزیکٹو آرڈر میں امریکی ایجنسیوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ امریکا میں پیدا ہونے والے ایسے بچوں کی شہریت کو تسلیم کرنے سے انکار کریں جن کے والدین میں سے کوئی بھی امریکی شہری نہ ہو۔
امریکی محکمہ انصاف نے بدھ کی رات جمع کرائے گئے ایک مختصر بیان میں اس حکم نامے کو ملک کے ٹوٹے ہوئے امیگریشن نظام اور جنوبی سرحد پر جاری بحران سے نمٹنے کے لیے صدر کی کوششوں کا ’لازمی حصہ‘ قرار دیا تھا۔
سیئٹل میں دائر کیا گیا مقدمہ ایگزیکٹو آرڈر کے خلاف لائے گئے 4 دیگر مقدمات کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، یہ ذمہ داری ریپبلکن پارٹی کے سابق صدر رونالڈ ریگن کے مقرر کردہ جج جان کوفینور کو سونپی گئی ہے۔
جج ممکنہ طور پر دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنا سکتے ہیں، یا وہ ٹرمپ کے حکم کے نافذ العمل ہونے سے پہلے فیصلہ لکھنے کا انتظار کر سکتے ہیں۔
اس حکم نامے کے تحت 19 فروری کے بعد پیدا ہونے والے ایسے بچے جن کی والدہ یا والد شہری یا قانونی طور پر مستقل رہائشی نہیں ہیں، انہیں ملک بدری کا سامنا کرنا پڑے گا اور انہیں سوشل سیکیورٹی نمبر، مختلف حکومتی فوائد اور قانونی طور پر کام کرنے کی اہلیت حاصل کرنے سے روکا جائے گا۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی زیر قیادت ریاستوں کے مطابق ’اگر ٹرمپ کے حکم پر قائم رہنے کی اجازت دی گئی تو سالانہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد نوزائیدہ بچوں کو شہریت سے محروم کر دیا جائے گا‘۔
ڈیموکریٹک ریاست کے اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ آئین کی شہریت کی شق کی تفہیم کو 127 سال قبل اس وقت تقویت ملی تھی، جب امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ غیر شہری والدین کے ہاں امریکا میں پیدا ہونے والے بچے امریکی شہریت کے حق دار ہیں۔
14ویں ترمیم خانہ جنگی کے بعد 1868 میں منظور کی گئی تھی اور اس نے سپریم کورٹ کے بدنام زمانہ 1857 کے ’ڈریڈ اسکاٹ‘ کے فیصلے کو منسوخ کردیا تھا، جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ آئین کے تحفظ کا اطلاق غلام سیاہ فام لوگوں پر نہیں ہوتا۔
امریکی محکمہ انصاف نے اپنے مختصر بیان میں دلیل دی کہ 14ویں ترمیم کی تشریح کبھی بھی ملک میں پیدا ہونے والے ہر فرد کو عالمی سطح پر شہریت دینے کے لیے نہیں کی گئی تھی، اور یہ کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا بمقابلہ وونگ کم آرک میں سپریم کورٹ کے 1898 کے فیصلے کا تعلق صرف مستقل رہائشیوں کے بچوں سے ہے۔
محکمہ انصاف نے کہا کہ چاروں ریاستوں کا معاملہ ’متعدد رکاوٹوں کو بھی دور کرتا ہے‘۔
محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ شہریت کی شق کے تحت ریاستیں نہیں، بلکہ صرف افراد ہی دعویٰ کر سکتے ہیں اور ان ریاستوں کے پاس ٹرمپ کے حکم پر مقدمہ کرنے کے لیے ضروری قانونی حیثیت نہیں ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان میں ٹرمپ کے 36 ریپبلکن اتحادیوں نے منگل کے روز علیحدہ علیحدہ طور پر ایک قانون متعارف کرایا، جس کے تحت صرف شہریوں یا قانونی طور پر مستقل رہائشیوں سے پیدا ہونے والے بچوں کو خودکار شہریت دینے کی اجازت دی جائے گی۔