سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پیکا ترمیمی بل منظور کرلیا
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پیکا ترمیمی بل کی منظوری دے دی، صحافتی تنظیموں اور جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بل کی مخالفت کی، سینیٹر عرفان صدیقی نے واضح کیا کہ صحافیوں کا تحفظ بھی کرنا ہے، اگر قانون کا رخ صحافیوں کی طرف آئے گا تو ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
ڈان نیوز کے مطابق سینیٹر فیصل سلیم رحمٰن کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس ہوا جس میں پیکا ترمیمی بل پر بحث ہوئی، صحافتی تنظیموں نے بل کی مخالفت کی۔
چیئرمین کمیٹی نے صحافتی تنظیموں کی جانب سے تحریری سفارشات پیش نہ کرنے پر اعتراض کیا، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ صحافتی تنظیموں کو اپنی تحریری سفارشات کمیٹی میں رکھنی چاہیے تھیں۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ اس ملک میں کسی کو ہتھکڑیاں لگانے کے لیے ضروری نہیں کہ کسی قانون کی ضرورت ہو، انہیں خود کرایہ داری کے قانون کے تحت پکڑا گیا تھا۔
جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے پیکا بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اتنی جلدی میں کیوں منظور کیا جارہا ہے، بل میں بہت سی کمزوریاں ہیں، فیک نیوز کی تشریح نہیں کی گئی، کیسے فیصلہ ہوگا کہ فیک نیوز کیا ہے، جو ایسے متنازع قوانین کی بنیاد رکھتا ہے وہی اس کی زد میں آجاتا ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا وہ خود بھی فیک نیوز سے متاثر رہے، روزانہ فیک نیوز کے خلاف مقدمات کریں تو صرف وکلا کو ہی ادائیگیاں کرتے رہیں گے۔
سیکریٹری داخلہ نے دعویٰ کیا کہ یہ قانون لوگوں کے تحفظ کے لیے ہے، حکومت کچھ ترامیم بھی لائی ہے تاکہ اس قانون کا بہتر اطلاق ہوسکے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ قومی اسمبلی سے منظور کردہ بل کو اسی صورت میں منظور کیا جائے۔ بعد ازاں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پیکا ترمیمی بل کی منظوری دے دی۔
یاد رہے کہ جمعرات کو قومی اسمبلی سے کثرت رائے سے منظوری کے بعد پیکا ترمیمی بل 2025 اگلے روز سینیٹ میں پیش کیا گیا تھا جسے چیئرمین سینیٹ نے قائمہ کمیٹی کو بجھوا دیا تھا۔
قومی اسمبلی میں ترمیمی بل وفاقی وزیر رانا تنویر نے پیش کیا تھا، جبکہ صحافیوں اور اپوزیشن نے پیکا ترمیمی بل کے خلاف ایوان زیریں سے واک آؤٹ کیا تھا۔
علاوہ ازیں صحافیوں کی مختلف تنظیموں نے اپنے الگ الگ بیانات میں پیکا ترمیمی بل کی مذمت کی تھی۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) سمیت صحافیوں کے حقوق کے گروپوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیم جوائنٹ ایکشن کمیٹی (جے ای سی) نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا، جس میں اس ترمیم کی مذمت کی گئی تھی۔
پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025
واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے 22 جنوری کو پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا جس کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی، جھوٹی خبر پھیلانے والے شخص کو 3 سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ عائد کیا جاسکے گا۔
حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہو گا، جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔
ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی جب کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔
پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہوگی، سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔
ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی، سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا ایکس آفیشو اراکین ہوں گے، بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔
حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، ایکس آفیشو اراکین کے علاوہ دیگر 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئیر انجینئر بھی شامل ہوں گے جب کہ ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔
ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی، ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہو گا، صحافی، سافٹ ویئر انجینئر بھی ٹربیونل کا حصہ ہوں گے۔