پی ٹی آئی نہیں آئی تو ہم غور کریں گے کہ اپنی کمیٹی کو تحلیل کردیں، سینیٹر عرفان صدیقی
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) مذاکرات میں آتی ہے تو اپنا جواب ان سے شیئر کریں گے، اگر پی ٹی آئی والے نہیں آئے تو پھر یہ ان کا حتمی فیصلہ ہے کہ مذاکرات کا سلسلہ ختم کردیا، ہم بھی غور کریں گے کہ اپنی کمیٹی کو تحلیل کردیں۔
اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ مجھے کچھ علم نہیں ہے کہ پی ٹی آئی نے کیا فیصلہ کیا ہے، مگر کل رات پارٹی کے قائم مقام چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ وہ نہیں آئیں گے، یہ ان کا فیصلہ ہے مگر اسپیکر ایاز صادق نے میٹنگ ملتوی نہیں کی ہے اس لیے مسلم لیگ (ن) کمیٹی میں جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی مذاکرات میں آتی ہے تو اپنا جواب ان سے شیئر کریں گے، پی ٹی آئی کے مطالبات کے مطابق اگر کوئی تراش خراش کرنی ہے تو وہ بھی کریں گے، اگر وہ نہیں آتے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ یہ ان کا حتمی فیصلہ ہے کہ مذاکرات کا سلسلہ ختم کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی نہیں آتی تو ہم بھی اپنی قیادت سے کہیں گے کہ کمیٹی کے قائم رہنے کا کیا مقصد رہ جاتا ہے، کمیٹی میں 7 جماعتوں کے 7 لوگ ہیں جن کی اپنی مصروفیات ہیں، ہم انہیں قید نہیں کرسکتے، اگر وہ ملاقات سے گریزاں ہیں اور کسی صورت میں ہم سے معاملات طے نہیں کرتے تو ہم غور کریں گے کہ اپنی کمیٹی کو تحلیل کردیں۔
اس سوال پر کہ پی ٹی آئی کمیشن بنانے کی صورت میں مذاکرات کے لیے تیار ہے تو کیا حکومت کمیشن بنائے گی؟ عرفان صدیقی نے کہا کہ ایسے نہیں ہوتا، انہوں نے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہوا ہے، ہم نے ان کے مطالبات پر 3 طویل ملاقاتیں کی ہیں، ساتوں جماعتوں نے ان ملاقاتوں میں شرکت کی ہے، ہم نے قانونی ماہرین سے مشاورت کی ہے اور سنجیدہ مشق کر رکھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے تین ملاقاتوں میں ایک مرتبہ بھی یہ بات نہیں کی کہ اگر آپ چوتھی ملاقات سے پہلے کمیشن بنادیں گے تو ہم آئیں گے یا نہیں آئیں گے۔
حکومتی کمیٹی کے ترجمان نے کہا کہ تیسری ملاقات کا اعلامیہ دیکھ لیں، اگر وہ یہ بات کہتے تو ہم اسے اعلامیے میں شامل کرتے، یہ کوئی مطالبہ نہیں ہوا، طے ہوا تھا کہ کمیشن بننے یا نہ بننے سے متعلق جو بھی فیصلہ ہوگا اس کا جواب حکومت 28 تاریخ کو 7 ورکنگ ڈے مکمل ہونے کے بعد دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے باہر کے رہنماؤں نے یہ بات کہی کہ پہلے کمیشن قائم کیا جائے اس کے بعد مذاکرات شروع ہوں، یہ تو گھوڑے کے آگے گاڑی جوتنے والی بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ آئیں، کمیشن بنے نہ بنے، ہم اس پر آپ سے بات کریں گے، ہوسکتا ہے آپ کو کمیشن مل جائے، ہوسکتا ہے کمیشن نہ بنے اور ہم کوئی اور طریقہ کار طے کرلیں اور آپ اس سے متفق ہوجائیں، مذاکرات اس طرح نہیں ہوتے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ پہلی ملاقات میں ان کے صرف ایک لیڈر آئے، دوسری ملاقات میں وہ آئے اور وعدہ کیا کہ تحریری مطالبات لائیں گے مگر نہیں لائے، پھر ہم 42 دن انتظار کرتے رہے، 6 ہفتے بعد وہ مطالبات لے کر آئے اور کہتے ہیں کہ ابھی کھڑے کھڑے کمیشن کا اعلان کردیں، تو ایسا نہیں ہوتا، مطالبات کا ایک سلیقہ ہوتا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی مذاکرات کے قاعدے، اصول اور طریقہ کار سے زیادہ واقف نہیں ہے یا شاید اس حوالے سے اسے مہارت نہیں ہے۔