• KHI: Fajr 5:57am Sunrise 7:15am
  • LHR: Fajr 5:33am Sunrise 6:56am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:06am
  • KHI: Fajr 5:57am Sunrise 7:15am
  • LHR: Fajr 5:33am Sunrise 6:56am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:06am

فلسطینیوں کی بے دخلی کے غیر منصفانہ اقدام میں شریک نہیں ہو سکتے، مصری صدر

شائع January 29, 2025
— فائل فوٹو: ڈان
— فائل فوٹو: ڈان

اردن، فلسطین، جرمنی کے بعد مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطینی عوام کو مصر اور اردن بھیجنے کی تجویز مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس غیر منصفانہ اقدام میں شریک نہیں ہوسکتے۔

العربیہ ڈاٹ اردو کے مطابق مصری صدر نے قاہرہ میں کینیا کے صدر ولیم روٹو کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران واضح کیا کہ مصر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ دو ریاستی حل کی بنیاد پر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان قیام امن کا حصول ممکن بنایا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی بے دخلی سے متعلق جو کچھ کہا جارہا ہے، اس کی اجازت دینا ممکن نہیں ہے کیوں کہ اس کے اثرات مصر کی قومی سلامتی پر پڑسکتے ہیں جسے بالکل برداشت نہیں کیا جاسکتا۔

عبدالفتاح السیسی نے واضح کیا کہ وہ مسئلہ فلسطین کے حوالے مصر کے تاریخی اور اٹل موقف سے دستبردار نہیں ہوں گے جب کہ مصر نے اس بحران کے شروعات میں ہی بتادیا تھا کہ اس کا مقصد جبری ہجرت ہے۔

مصری صدر کا کہنا تھا کہ قاہرہ نے اس بحران کے آغاز میں ہی اس منصوبے کو مسترد کرنے کے حوالے سے اپنے موقف کا اعلان کر دیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی عوام پر گزشتہ 70 برسوں کے دوران تاریخی ظلم ہوتا آیا ہے اور 7 اکتوبر کے بعد ہونے والے واقعات مسئلہ فلسطین کے پائیدار حل تک نہ پہنچنے کا خمیازہ ہے۔

اس سے قبل، مصر کے ایک اعلیٰ سطح کے عہدیدار نے ان میڈیا رپورٹس کو مسترد کردیا تھا جس میں کہا جارہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور عبدالفتاح السیسی کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے جس میں فلسطینیوں کی غزہ سے منتقلی پر بات ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد صہیونی ریاست کی جانب سے فلسطینیوں پر نہ ختم ہونے والے مظالم کا سلسلہ شروع ہوا جس کی وجہ سے غزہ کی پٹی کے تقریبا 24 لاکھ افراد بے گھر ہو گئے۔

تاہم، غزہ میں 15 ماہ سے جاری لڑائی کے بعد 16 جنوری کو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی، یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ طے پا گیا تھا، جس کے معاہدے کے تحت فلسیطنیوں کی غزہ واپسی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان 6 ہفتوں پر محیط جنگ بندی کے ابتدائی مرحلے میں وسطی غزہ سے اسرائیلی افواج کا بتدریج انخلا اور بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ میں واپسی شامل ہے۔

اس سے قبل، برلن میں ٹاؤن ہال کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جرمن جانسلر اولاف شولز نے کہا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو مصر اور اردن منتقل کرنے کا منصوبہ پیش کرنے کے بعد انہیں بے دخل کرنا ’ناقابل قبول‘ ہوگا۔

علاوہ ازیں، فلسطینی صدر محمود عباس نے غزہ کے شہریوں کو بے دخل کرنے کے کسی بھی منصوبے کی مذمت کی۔

حماس کے پولیٹیکل بیورو کے رکن باسم نعیم کا کہنا تھا کہ فلسطینی ’ایسے کسی بھی منصوبے کو ناکام بنائیں گے‘ جیسا کہ وہ کئی دہائیوں سے بے دخلی اور متبادل وطن کے اسی طرح کے منصوبوں کے ساتھ کرتے آئے ہیں۔

واضح رہے کہ ٹرمپ نے 24 لاکھ آبادی والے غزہ کے بارے میں کہا کہ ’آپ شاید ڈیڑھ لاکھ لوگوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں، اور ہم صرف اس پوری چیز کو صاف کر دیتے ہیں‘۔

ٹرمپ نے مزید کہا کہ ’میں کچھ عرب ممالک کی مدد سے کسی دوسری جگہ پر مکانات تعمیر کرنا چاہتا ہوں جہاں وہ تبدیلی کے لیے امن سے رہ سکیں‘، انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کے رہائشیوں کو منتقل کرنا ’عارضی یا طویل مدتی‘ ہوسکتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 30 جنوری 2025
کارٹون : 29 جنوری 2025