گاڑیوں کے معاملے پر ایف بی آر افسران نے مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دی، فیصل واڈا کا الزم
سابق وفاقی وزیر سینیٹر فیصل واڈا نے الزام عائد کیا ہے کہ گاڑیوں کی خریداری کے معاملے پر فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کے افسران کی جانب سے مجھے جان سے مارنے اور میرا کاروبار برباد کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین سلیم مانڈوی کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں ایف بی آر کی جانب سے 1010 گاڑیوں کی خریداری کا معاملہ زیر بحث آیا۔
چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کو بتایا کہ کوالٹی آف اسیسمنٹ آرڈر سے ہم افسران کی کارکردگی دیکھتے ہیں، جس پر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ آپ کے ہاں لاکھوں اور کروڑوں کے ایوارڈ سسٹم ہیں، آپ یہ کیسی بات کر رہے ہیں کہ ایسا کوئی سسٹم نہیں ہے۔
سینیٹر فیصل واڈا نے کہا کہ ایف بی آر کا خط 10 جنوری کو منظر عام آیا اور آڈر دے دیا گیا، جب کمیٹی نے نوٹس لیا تو اس کے مقابلے پر ایک اور ملٹی نیشنل کار کمپنی پر چھاپہ مارا گیا۔
فیصل واڈا نے الزام عائد کیا کہ تین افسران نے مجھے مارنے کی دھمکی دی، مجھے میرا کاروبار برباد کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، اس معاملے پر تو کریمنل کاروائی بنتی ہے، میرے پاس ثبوت ہیں، میں ان کو جواب دوں گا۔
انہوں نے کہا کہ میں 54 کرپٹ افسران کی فہرست لایا ہوں جو جواہرات اور سونے کی تجارت کر رہے ہیں، میرے پاس ان کی جائیدادوں اور اثاثوں کی مکمل تفصیلات ہیں جب کہ یف بی آر کی گاڑیوں کون کون غلط استعمال کرتا ہے، سارے ثبوت ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گاڑیوں کی خریداری میں مجرمانہ غفلت کی گئی، ایک ہزار گاڑیاں سالانہ ایک ارب روپے کا پیٹرول کھا جائیں گی، انفورسمنٹ کی 100 فور ویل گاڑیاں افسران کے گھروں پر پہنچ گئی ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے دھمکیاں دینے والے ٹیکس افسران کے خلاف کیس ایف آئی اے کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایف بی آر حکام نے گاڑیوں کو معاملہ اٹھانے پر دھمکیوں والے پیغام بھیجے۔
چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ جن افسران نے دھمکیاں دی انہیں نہیں بخشوں گا، دھمکی کے خلاف ہائی لیول انکوائری کرائی جانی چاہیے۔
قائمہ کمیٹی کے اراکین نے مطالبہ کیا کہ یہ معاملہ کسی کرائم ایجنسی یا ایف آئی اے کوبھیجا جائے۔
خیال رہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے ایف بی آر افسران کے لیے اربوں روپے کی مالیت کی ایک ہزار سے زائد گاڑیاں خریدنے پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی خزانہ سلیم مانڈوی والا نے سوال کیا کہ ایک ہزار گاڑیاں ایف بی آر کس لیے خرید رہا ہے، سینیٹر فیصل واڈا نے بھی اس پر اعتراض کرتے ہوے کہا ایف بی آر مخصوص کمپنی سے گاڑیاں خرید رہا ہے، یہ بہت بڑا اسکینڈل ہے۔
انکم ٹیکس فارم کو سادہ اور آسان بنایا جائے گا، وزیر خزانہ
بعد ازاں، کمیٹی اجلاس میں 6 ماہ کے دوران 386 ارب روپےکا ریونیو شارٹ فال بھی زیربحث آیا۔
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کے ساتھ درمیانی مدت کے پروگرام میں ہے، اس بار بجٹ پر فروری میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ سوموار کو اسلام آباد چیمبر جائیں گے میرے ساتھ وزیر مملکت اور چیئرمین ایف بی آر ہوں گے، اگلے مالی سال میں پالیسی کو ایف بی آر سے الگ کردیں گے۔
انہوں نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کم کرنے کے لیے اقدامات کریں گے، انکم ٹیکس فارم کو سادہ اور آسان بنایا جائے گا۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے پوچھا کہ ’کیا آپ اپنے موجودہ کچھ ٹیکسز کسی اور مد میں کنورٹ کر سکتے ہیں، کیا پٹرولیم لیوی کو کاربن ٹیکس میں کنورٹ کر سکتے ہیں؟
کمیٹی کے رکن سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اگر کاربن ٹیکس لگا دیتے ہیں تو چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا، اگر قیمتیں بڑھ گئیں تو غریب آدمی تو پس کر رہ جائے گا۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم نے ورلڈ بینک کے ساتھ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک سائن کیا ہے، اس فریم ورک میں کلائیمٹ اور کاربن بھی شامل ہے۔