• KHI: Zuhr 12:45pm Asr 4:40pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 3:59pm
  • ISB: Zuhr 12:21pm Asr 3:59pm
  • KHI: Zuhr 12:45pm Asr 4:40pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 3:59pm
  • ISB: Zuhr 12:21pm Asr 3:59pm

16 دسمبر اور 9 مئی والے شہریوں میں کیا فرق ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی

شائع January 31, 2025
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 16 دسمبر اور 9 مئی والے شہریوں میں کیا فرق ہے؟ محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ہیں کہ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ٹو کالعدم قرار دینے سے کلبھوشن یادو کیس میں ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا۔

سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی۔

جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 8 (3) اے اگر میرے کیس میں محرک ہے تو پھر کوئی بنیادی حقوق نہیں رہیں گے، میری استدعا بس یہ ہے کہ سویلینز ملٹری ٹرائل میں نہیں آتے، میں پورے آرمی ایکٹ کو بالکل بھی چیلنج نہیں کر رہا، جسٹس منیب نے بھی اپنے فیصلے میں اس چیز کا حوالہ دیا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ گزشتہ روز ہمیں قائل کیا گیا کہ ملٹری ٹرائل فئیر ٹرائل ہوتا ہے۔

دوران سماعت وکیل لطیف کھوسہ نے پھر سیٹ پر بیٹھے بیٹھے بولنے کی کوشش کی جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کھوسہ صاحب، یہ نہ کیجیے، آپ سینیئر وکیل ہیں۔

وکیل خواجہ جواد احمد حسین نے کہا کہ وفاق کے دلائل اس سے مختلف ہیں، پہلے وہ کہہ رہے ہیں کہ 8 (3) اے کی بنیاد پر آپ نہیں دیکھ سکتے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کوئی ایسا رائیٹ جو کنسسٹنٹ ہو وہ چیلنج ہو سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ٹو ون ڈی 1967 میں ایڈ ہوا ہے، 1952 سے آج تک یہ ایکٹ چلا رہا ہے، ایف بی علی کیس میں تنازع ہوا تھا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے وہ بھی ہو سکتا ہے، آج کل ہم اس میں بھی آ گئے ہیں کہ کوئی سیاسی جماعت اس طرح کی حرکت کرے تو کیا ہونا چاہیے، گزشتہ روز میں نے مہران بیس، اور مختلف واقعات کا ذکر کیا تھا۔

کیا ائیر بیسز پر حملہ کرنے پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے؟ جسٹس حسن اظہر رضوی

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ٹو ون ڈی ون کے تحت سویلینز آرمی ایکٹ کے انڈر آتے ہیں یا نہیں؟ کیا ائیر بیسز پر حملہ کرنے پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے؟جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 9 مئی اور 16 دسمبر والے سویلینز میں کیا فرق ہے؟

وکیل احمد حسین نے کہا کہ آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کا حملہ ہوا، اے پی ایس واقعے کے بعد 21 ویں ترمیم کی گئی، پھر ان ملزمان کے ٹرائل ہوئے تھے، اے پی ایس میں سارے سویلین بچے مارے گئے،ہمارا مقدمہ آئین سے باہر نہیں ہے، 9 مئی والوں کا ٹرائل ہو لیکن ملٹری نہیں۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اس میں کوئی دوسری رائے کہ آئین سے منافی قانون برقرار نہیں راہ سکتا۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے 9 مئی پر افواج پاکستان کا اعلامیے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس پی آر نے 9 مئی واقعہ پر 15 مئی کو اعلامیہ جاری کیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو اعلامیے پر اعتراض ہے؟ خواجہ جواد نے کہا کہ میرا اعلامیے پر کوئی اعتراض نہیں، اعلامیے میں کہا گیا 9 مئی پر پورے ادارہ میں دکھ اور درد پایا جاتا ہے، اعلامیہ میں کہا گیا کہ 9 مئی کے نا قابل تردید شواہد موجود ہیں، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کور کمانڈر اجلاس کے اعلامیہ کے بعد ملٹری ٹرائل میں فیئر ٹرائل کیسے مل سکتا ہے؟ خود متاثرہ فرد شفاف ٹرائل نہیں دے سکتا؟

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کیس کی مثال موجود ہے جس میں صرف افواج پاکستان ہی متاثرہ نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ٹو کالعدم قرار دینے سے کلبھوشن یادو کیس میں ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا۔

وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کلبھوشن یادو پر بات نہیں کی گئی۔

ملک دشمن جاسوس کا ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہوگا،وکیل

جسٹس حسن اظہر نے استفسار کیا کہ اگر مستقل میں کوئی ملک دشمن جاسوس پکڑا جائے تو ٹرائل کہاں ہوگا؟ وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ملک دشمن جاسوس کا ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہوگا۔

جسٹس حسن اظہر نے وکیل احمد حسین کے جواب پر مسکرائے ہوئے ریمارکس میں کہا’اچھا جی’۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ عجیب بات ہے، قانون کی شق کالعدم بھی قرار دی جائے اور کہا جائے کہ اسپیشل ریمیڈی والوں کو استثنیٰ ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ مستقبل میں کیا افواج پاکستان آرمی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی ٹو استعمال کر سکتی ہے؟ وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ مستقبل میں ٹو ون ڈی ٹو کا استعمال نہیں ہو سکے گا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے روز سننے میں آتا ہے کہ انتے جوان شہید ہو گئے، حملہ آور سویلیز ہوتے ہیں، آپ کے مطابق سویلیز کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں نہیں انسداد دہشتگردی عدالت میں ہونا چاہیے، ٹو ڈی ون ٹو کے کالعدم ہونے پر ملزمان کا ٹرائل کیسے ہو گا؟ اس وقت ملک کے ڈھائی صوبے دہشتگردی کی لپیٹ میں ہیں، ملک میں مکتی باہنی کی تحریک نہیں حملہ آور سویلینز ہی ہیں۔

دہشتگردی روکنا انتظامیہ کا کام ہے، جسٹس جمال مندوخیل

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے دہشتگردی روکنا انتظامیہ کا کام ہے، ان کی ذمہ داری ہے کہ شواہد اکٹھے کرے، عدالت کے سامنے جب شواہد نہیں ہونگے تو فیصلے کیسے دیں گے؟ سو گنہگاروں کو چھوڑنے سے زیادہ ایک بے گناہ کو سزا دینا غلط ہے، ہم نے صرف فیصلہ کرنا ہے، انصاف اللہ ہی کر سکتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں مزید کہا کہ میں خود دہشت گردی کا شکار ہوا، ہمارا ججز کا ایک قافلہ جا رہا تھا، 5 منٹ قبل بم دھماکا ہوا، خدانخواستہ اگر حملہ کامیاب ہوتا تو 6 ججز چلے جاتے، اگر ہماری عدالتوں کے سامنے شواہد نہیں ہوں گے تو ملزمان بری ہی ہوں گے، بغیر شواہد کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی، پھر کہتے ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 130ویں نمبر پر ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے انسداد دہشتگردی عدالت ہو یا کوئی بھی عدالت، بہتری کے لیے اصلاحات ضروری ہوتی ہیں، یہاں کوئی گواہی دینے نہیں آتا، کسی کے سامنے قتل ہو جائے پھر بھی وہ گواہی نہیں دیتا، گواہان کو تحفظ نہیں دیا جاتا، قتل کیس میں 25،25 تاریخیں تو وکیل لے جاتا ہے اور مقدمہ ملتوی ہوتا رہتا ہے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا 21 ویں آئینی ترمیم 4 سال کے لیے ہوئی جس کے تحت خصوصی عدالتیں بنیں، بتائیں 21 ویں ترمیم کا کوئی فائدہ ہوا؟ عدالت نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت 3 فروری تک ملتوی کردی، پیر کو بھی سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 1 فروری 2025
کارٹون : 31 جنوری 2025