حماس نے مزید 3 یرغمالی رہا کردیے، اسرائیل 183 فلسطینیوں کو آزاد کرے گا
جنوبی اور شمالی غزہ میں دو الگ الگ مقامات سے 3 اسرائیلی قیدیوں کیتھ سیگل، اوفر کلڈرون اور یارڈن بیبس کو رہا کر دیا گیا ہے۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق فلسطینی قیدیوں کی سوسائٹی کا کہنا ہے کہ غزہ میں قید قیدیوں کے چوتھے تبادلے میں 183 فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے رہا کیا جائے گا۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ بیرون ملک علاج کی ضرورت رکھنے والے 50 فلسطینیوں کو مصر کے ساتھ دوبارہ کھولے گئے رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ چھوڑنے کی اجازت دی جائے گی۔
اسرائیلی افواج نے مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک بڑی فوجی کارروائی جاری رکھی ہوئی، جس میں جنین اور تلکریم پناہ گزین کیمپوں کے ساتھ ساتھ دیگر فلسطینی برادریوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے اور گزشتہ ہفتے سے اب تک دو درجن سے زائد افراد کو شہید کیا جاچکا ہے۔
غزہ پر اسرائیل کی جنگ میں 7 اکتوبر 2023 سے اب تک کم از کم 47 ہزار 460 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 11 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، اس دوران حماس کی زیر قیادت حملوں میں اسرائیل میں کم از کم ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے اور 200 سے زیادہ کو یرغمال بنا لیا گیا تھا، جنگ بندی کے معاہدے کے تحت ان یرغمالیوں کی رہائی کا عمل بتدریج جاری ہے۔
حماس نے رہائی کا عمل فوری مکمل کیا
انٹرنیشنل کمیونٹیز آرگنائزیشن کے مشرق وسطیٰ کے ڈائریکٹر گرشون بسکن نے ’الجزیرہ‘ کو بتایا ہے کہ یہ واضح ہے کہ گزشتہ جمعرات کو قیدیوں کی رہائی سے حماس نے سبق سیکھا ہے۔
گرشون بسکن (جو اسرائیل میں یرغمالیوں کے سابق مذاکرات کار بھی تھے) نے کہا کہ آج دونوں اسرائیلی یرغمالیوں کی منتقلی پرسکون اور منظم رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خان یونس کے علاقے کو شہریوں سے خالی کرا لیا گیا، حماس کے مجاہدین کا علاقے پر مکمل کنٹرول تھا اور رہائی کا کام فوری طور پر مکمل کر لیا گیا۔
اسرائیل کی نو آبادیاتی پالیسی
مقبوضہ مغربی کنارے کی برزیت یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر اور سیاسی قیدیوں کے ماہر باسل فرراج نے ’الجزیرہ‘ سے اسرائیل کی جانب سے رہائی پانے والے کچھ فلسطینیوں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے کے بارے میں بات کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے فلسطینی قیدیوں کو مصر جلاوطن ہوتے دیکھا اور اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ صرف ایک عارضی مرحلہ ہے یا نہیں۔
باسل فرج نے کہا کہ یہ حربہ اسرائیل کے لیے قیدیوں اور ان کے اہل خانہ سے بدلہ لینے کا ایک طریقہ ہے اور انہیں دوبارہ ملنے کی خوشی سے محروم کر دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ فلسطینیوں کو ملک بدر کرنے کی وسیع تر نوآبادیاتی پالیسی کا حصہ ہے، یہ ان کی مزاحمت کو مجرمانہ بنانے کا طریقہ ہے۔
باسل فرج نے کہا کہ گزشتہ تبادلوں کے دوران رہا کیے گئے اور مصر جلاوطن کیے گئے قیدیوں کے خاندانوں میں سے کچھ کو اسرائیلی حکام نے فلسطینی علاقہ چھوڑنے کی اہلیت سے محروم کر دیا ہے۔