• KHI: Zuhr 12:46pm Asr 4:42pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 4:01pm
  • ISB: Zuhr 12:22pm Asr 4:02pm
  • KHI: Zuhr 12:46pm Asr 4:42pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 4:01pm
  • ISB: Zuhr 12:22pm Asr 4:02pm

پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور جی ایچ کیو پر حملہ ایک جیسا ہے تو پھر تفریق کیوں؟ جسٹس مندوخیل

شائع February 3, 2025
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر عائد کردہ 20 ہزار روپے جرمانہ واپس لے لیا، جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں استفسار کیا کہ پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور جی ایچ کیو پر حملہ ایک جیسا ہے تو پھر تفریق کیوں اورکیسے کی جاتی ہے؟

سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سویلین کے ملٹری ٹرائل کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اپنایا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل کسی صورت نہیں ہو سکتا، فوجی عدالتوں کا طریقہ کار شفاف ٹرائل کے تقاضوں کے برخلاف ہے۔

وکیل نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے تمام 5 ججز نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے طریقہ کار کے شفاف ہونے سے اتفاق نہیں کیا، جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا دھماکا کرنے والے اور عام شہریوں میں کوئی فرق نہیں ہے؟

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ میں کسی دہشت گرد یا ملزم کے دفاع میں دلائل نہیں دے رہا، سویلنز کا کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو 21 ویں ترمیم نہ کرنا پڑتی، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ 21 ویں ترمیم میں تو کچھ جرائم آرمی ایکٹ میں شامل کیے گئے تھے۔

وکیل نے کہا کہ اگر آرمی ایکٹ میں ترمیم سے کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو آئینی ترمیم نہ کرنی پڑتی، اس طرح کورٹ مارشل ممکن ہے تو عدالت کو قرار دینا پڑے گا کہ 21ویں ترمیم بلاوجہ کی گئی، 21ویں ترمیم میں آرٹیکل 175 میں بھی ترمیم کی گئی، فوجی عدالتوں میں فیصلے تک ضمانت کا کوئی تصور نہیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ 15 دن میں فیصلہ ہوجائے تو ضمانت ہونا نہ ہونا سے کیا ہوگا، خواجہ احمد حسین نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں اپیل کسی آزاد فورم پر جاتی ہے نہ مرضی کا وکیل ملتا ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ملزم کے حقوق ہوتے ہیں، گرفتاری سے پہلے بھی سزا کے بعد بھی، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا سب فیصلے ہمارے سامنے ہیں، ہمیں پتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے، 21ویں ترمیم میں تو سیاسی جماعت کو باہر رکھا گیا تھا، ہمارے سامنے سوال صرف یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کس پر ہوگا؟

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں مزید کہا خدانخواستہ دہشت گردی کا ایک حملہ پارلیمنٹ، ایک حملہ سپریم کورٹ اور ایک حملہ جی ایچ کیو پر ہوتا ہے تو پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ پر حملے کا ٹرائل انسداد دہشت گردی عدالت میں چلے گا، جی ایچ کیو پر حملے کا کیس ملٹری کورٹ میں چلے گا، میری نظر میں تینوں حملے ایک جیسے ہی ہیں تو تفریق کیوں اور کیسے کی جاتی ہے۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ قانون ٹھیک بنا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ کس پر لاگو ہوتا ہے، عدالت سے صرف یہ گزارش ہے کورٹ مارشل کا دروازہ نہ کھولیں، اگر اس اپیل کو منظور کیا جاتا ہے تو انسانی حقوق کے برخلاف ہے، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم کوئی دروازہ نہیں کھول رہے ہمارے سامنے ایک اپیل ہے وہ سن رہے ہیں، ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ اپیل منظور کی جاتی ہے یا خارج کی جاتی ہے۔

وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 184(3) کا تعلق عوامی مفاد سے ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ اپنے دلائل محدود رکھیں کیا مرکزی فیصلہ درست تھا یا نہیں؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ نے شیخ لیاقت حسین کیس کی مثال دی تھی، اس وقت پبلک اور آرمی میں براہ راست کوئی لڑائی نہیں تھی، غالباً ایک واقعہ کراچی میں ہوا تھا جس میں ایک میجر کو اغوا کیا گیا تھا۔

خواجہ احمد حسین نے موقف اپنایا کہ وزارت دفاع کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت اپیل قابل سماعت ہی نہیں تھی، وزارت دفاع کے وکیل نے کہا جہاں آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 اے اپلائی ہو وہاں درخواست قابل سماعت تھی، اگر اس کیس میں آرٹیکل 184 کی شق 3 کا اطلاق نہیں ہو سکتا تو پھر کسی اور کیس میں اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔

وکیل نے مزید کہا کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ہمیشہ آرٹیکل 184 کی شق 3 کے اختیار سماعت کو محتاط انداز میں استعمال کرنے کی رائے دی، ملٹری کورٹس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی رائے دی کہ آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت براہ راست درخواست قابل سماعت تھی۔

ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہاکہ آج برگیڈیئر (ر) فرخ بخت علی کیس پر بھی دلائل دوں گا، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ شکر ہے پورا نام تو پتا چلا، ہم تو ایف بی علی کیس کے نام سے ہی جانتے تھے۔

وکیل خواجہ احمد حسین نے بتایا کہ ایف بی علی پر ملک کیخلاف جنگ شروع کرنے اور فوج کو بغاوت پر اکسانے کا الزام تھا، ایف بی علی کا کورٹ مارشل میجر جنرل ضیا الحق نے 1974 میں کیا، ایف بی علی نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی، کورٹ مارشل کرنے والے ضیاالحق ترقی پاکر آرمی چیف بن گئے، ضیاالحق کے آرمی چیف بننے کے بعد جو ہوا وہ اس ملک کی تاریخ ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اس دور میں تو کمانڈنٹ ان چیف اور ایئر چیف کو بھی اغوا کر لیا گیا تھا، اغوا کار نے اپنی کتاب میں وجوہات بھی تحریر کی ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ ویسے وجوہات کیا تھیں؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے جواب میں کہا کہ اس کے لیے آپ کو کتاب پڑھنا پڑے گی، جسٹس حسن اظہر رضوی کے جواب پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 21ویں ترمیم کا کیا بنا تھا؟ ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ 21ویں ترمیم کو ملنے والی توسیع 2019 میں ختم ہوگئی، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ 21ویں ترمیم ختم ہونے کے بعد موجودہ کیسز میں کورٹ ماشل کیسے ہوگیا؟

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ 9 اور 10 مئی کے کیسز میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ لاگو کیا گیا، جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا اس ملک میں احتجاج کرنا جرم ہے؟ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ احتجاج کرنا جرم نہیں املاک کو نقصان پہنچانا جرم ہے، اہم سوال ہے کہ کورٹ مارشل نہ ہو تو کیا ملزمان آزاد ہوجائیں گے؟ ملزمان آزاد نہیں ہوں گے کیونکہ انسداد دہشت گردی کا قانون موجود ہے، اس موقع پر سماعت میں وقفہ ہوگیا۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ کوشش کروں گا 15 منٹ میں دلائل مکمل کر لوں، عدالت کے سامنے ایک مسئلہ بنیادی حقوق اور دوسرا قومی سلامتی ہے، عدالت نے دونوں میں توازن پیدا کرنا ہو تو بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے، عدالتی فیصلہ برقرار رہا تو کسی ملزم یا دہشت گرد کو فائدہ نہیں پہنچے گا، انسداد دہشت گردی کا قانون موجود ہے جس میں گواہان کے تحفظ سمیت تمام شقیں ہیں، عدالت کسی بھی صورت سویلنز کو شفاف ٹرائل سے متصادم نظام کے حوالے نہیں کر سکتی۔

خواجہ احمد حسین نے مزید کہا کہ ملک عظیم وکیل قائداعظم محمد علی جناح کی کوششوں سے بنا، یہ آئینی بینچ قائداعظم کی تصویر کے نیچے بیٹھا ہوا ہے، ہماری عدلیہ نے ماضی میں ایسے فیصلے کیے جن کے سبب قوم کو بھگتنا پڑا، میری استدعا ہے کہ مرکزی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اپیلیں خارج کی جائیں۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ میرے موکل کو 20 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا، ہم نے اس حکم نامے کے خلاف نظرثانی بھی دائر رکھی ہے، استدعا ہے کہ جرمانہ عائد کرنے کا حکمنامہ واپس لیا جائے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ چلیں ہم جرمانہ ڈبل کر دیتے ہیں، پھر انہوں نے مسکراتے ہوئے وضاحت کی کہ یہ بات ہلکے پھلکے انداز میں کی گئی ہے۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ویسے بھی ہماری درخواست کافی حد تک غیر موثر ہو چکی ہے، آئینی بینچ کافی حد تک کیس سن چکا ہے۔

خواجہ احمد حسین نے کی استدعا کے بعد آئینی بینچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر عائد 20 ہزار روپے جرمانہ کا حکم نامہ واپس لے لیا، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی نظرثانی واپس لینے پر جرمانہ ختم کردیا گیا۔ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل مکمل کرلیے۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل شروع کرتے ہوئے موقف اپنایا پوری دنیا میں سویلین کا ملٹری ٹرائل آئین کو تباہ کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے، خواجہ حارث نے ایف بی علی کیس کا جو مطلب نکالا اس پر حیرانی ہوئی۔

سلمان اکرم راجا نے مزید کہاکہ ایف بی علی کیس یہ نہیں کہتا کہ بنیادی آئینی حقوق کا اطلاق آرمی ایکٹ کی دفعات پر نہیں ہوتا، ایف بی علی کیس اس کے بالکل برعکس بات کر رہا ہے، یوں بھی آئین میں آرٹیکل 175(3) آچکا ہے، آرٹیکل 175(3)، 1987 میں آیا، اس کے بعد ایگزیکٹو کورٹ کی گنجائش ہی نہیں، آرٹیکل 175(3) کے بعد ملٹری کورٹس والی تفریق پیدا کی ہی نہیں جا سکتی تھی، ایک جیسی ایف آئی آرز ہیں مگر کچھ لوگوں کی کسٹڈی فوج کو دے دی گئی۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے وہ معاملہ ہمارے سامنے نہیں ہے، سلمان اکرم راجا نے موقف اپنایا کہ یہ معاملہ بالکل اس عدالت کے سامنے موجود ہے، کسٹڈی دینے کے احکامات اور کمانڈنگ افسر کی درخواست اس عدالت کے سامنے موجود ہے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کیا پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے پاس قانون سازی کا اختیار ہے؟ سلمان اکرم راجا نے کہا جی بالکل اختیار ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے پھر تو وہ قانون سازی کر سکتے ہیں۔

سلمان اکرم راجا نے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اپنایا کہ بھارت میں سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ممکن نہیں، بھارت میں سویلینز کا ٹرائل ریگولر عدالتوں میں چلتا ہے، ملٹری کورٹ ایک ایگزیکٹو کورٹ ہے، یہاں مخصوص سویلینز کے ٹرائلز ملٹری کورٹس اور باقیوں کے دیگر عدالتوں میں بھیجے جاتے ہیں، ایسے نہیں ہوسکتا کہ کمانڈنگ افسر کہے کہ یہ ملزمان حوالے کردیں۔

عدالت نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی، سلمان اکرم راجا کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 4 فروری 2025
کارٹون : 3 فروری 2025