لاہور ہائیکورٹ: پیکا قانون کو کالعدم قرار دینے کی درخواست پر وفاق سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری
لاہور ہائی کورٹ نے پیکا ترمیمی قانون کو کالعدم قرار دینے کی درخواست پر وفاقی حکومت سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔
ڈان نیوز کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس فاروق حیدر نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی پیکا ترمیمی قانون کالعدم قرار دینے کی درخواست کی سماعت کی۔
پی ایف یوجے نے دائر درخواست میں الیکشن کمیشن، پی ٹی اے سمیت دیگر کو فریق بنایا ہے۔ عدالت عالیہ نے وفاقی حکومت سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کردیے۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ماضی میں پیکا کو خاموش ہتھیار کے طور استعمال کیا گیا، پیکا ترمیمی ایکٹ میں سزاؤں کے اضافے سے تھوڑی بہت آزادی بھی ختم ہوجائے گی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ پیکا بل متعلقہ اسٹیک ہولڈرز اور صحافتی تنظیموں کی مشاورت کے بغیر لایا گیا، عدالت سے استدعا ہے کہ پیکا ترمیمی ایکٹ غیر آئینی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے۔
پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025
واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے 22 جنوری کو قومی اسمبلی اور 28 جنوری کو سینیٹ سے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 منظور کروایا تھا جس کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی، جھوٹی خبر پھیلانے والے شخص کو 3 سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ عائد کیا جاسکے گا۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور شدہ پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا، جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔
ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی جب کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔
پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہوگی، سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔
ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی، سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا ایکس آفیشو اراکین ہوں گے، بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔
حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، ایکس آفیشو اراکین کے علاوہ دیگر 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئیر انجینئر بھی شامل ہوں گے جب کہ ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔
ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی، ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہو گا، صحافی، سافٹ ویئر انجینئر بھی ٹربیونل کا حصہ ہوں گے۔