پی ایف یو جے نے پیکا ترمیمی قانون کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے ایک دھڑے نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایڈووکیٹ عمران شفیق کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ قانون بنیادی آئینی حقوق بالخصوص اظہار رائے کی آزادی، پریس کی آزادی اور قانونی عمل کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ ترمیم شدہ قانون کی متعدد دفعات حد سے زیادہ وسیع، مبہم اور من مانے طریقے سے نافذ کی گئی ہیں، جس سے شہری آزادیوں کو خطرہ لاحق ہے۔
اہم اعتراضات میں ’سوشل میڈیا پلیٹ فارمز‘ کی مبہم تعریف شامل ہے جس کا اطلاق مختلف آن لائن خدمات پر کیا جاسکتا ہے اور ’غیر قانونی اور جارحانہ‘ مواد کو ریگولیٹ کرنے کی دفعات شامل ہیں، جنہیں موضوعی اور غلط انداز میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
پٹیشن میں تنقید اور اختلاف رائے پر پابندیوں کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
مزید برآں، درخواست میں چیپٹر ون اے، خاص طور پر سیکشن 2 سی اور 2 بی کے تحت ریگولیٹری اتھارٹی کو دیے گئے وسیع اختیارات پر روشنی ڈالی گئی ہے، جو مناسب نگرانی کے بغیر آن لائن مواد کو ہٹانے اور بلاک کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
سیکشن 2 (ٹی) اور 2 (وی) کے تحت کونسل اور ٹربیونل کے قیام کو آزادی اور غیر جانبداری کے فقدان پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
مزید برآں درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ترمیمی قانون آئین کے آرٹیکل 2-4، 8، 10 اے، 14، 18-19 اے، 25، 33 اور 37-38 میں درج بنیادی حقوق کے منافی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس قانون نے صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کو غیر متناسب طور پر متاثر کیا ہے جس سے پریس کی آزادی اور تحقیقاتی رپورٹنگ کو دبایا جا سکتا ہے۔
درخواست گزار نے عدالت سے پیکا 2025 کو غیر آئینی اور کالعدم قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے اس کے نفاذ کو بالخصوص صحافیوں کے خلاف روکنے کے لیے فوری حکم امتناع کی استدعا کی ہے۔