جسٹس خادم کو انتظامی کمیٹی میں شامل نہیں کرسکتے تھے، جسٹس بابر کا چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو خط
اسلام آباد ہائی کورٹ میں 3 ججز کا معاملہ مزید الجھنے لگا، عدالت عالیہ کے جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق کو خط لکھ کر کہا ہے کہ 9 ویں نمبر کے جج جسٹس خادم سومرو کو کمیٹی میں شامل نہیں کر سکتے تھے۔
ڈان نیوز کے مطابق جسٹس بابر ستار نے ٹرانسفر ججز کی سینیارٹی لسٹ جاری کرنے پر تحفظات کا اظہار کردیا، انہوں نے 6 صفحات پر لکھے گئے خط میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کے ہائی کورٹ ایڈمنسٹریشن کمیٹی تبدیلی کو بھی غیر قانونی کہہ دیا۔
جسٹس بابر ستار نے خط میں لکھا کہ سینیارٹی لسٹ اور ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے نوٹی فکیشن واپس لیے جائیں، جسٹس بابر ستار نے سینیارٹی لسٹ کے خلاف ریپریزنٹیشن فائل کرنے کا ذکر کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سینیارٹی لسٹ اور ایڈمنسٹریشن کمیٹی کا نوٹی فکیشن جاری کرنا غیر آئینی غیر قانونی ہے، بغیر اسلام آباد ہائی کورٹ جج کے حلف اٹھائے ٹرانسفر ججز کو کمیٹی میں رکھنا غیر قانونی ہے۔
جسٹس بابر ستار نے خط میں مزید لکھا کہ ٹرانسفر نوٹی فکیشن میں کہیں نہیں لکھا کہ ٹرانسفر عارضی ہے یا مستقل، آرٹیکل 194 کے تحت ہمارے معزز ساتھی ججز نے اپنی اپنی ہائی کورٹس کا حلف اٹھا رکھا ہے۔
خط میں ان کا کہنا تھا کہ حلف میں تینوں ججز نے کہہ رکھا ہے کہ وہ اپنی اپنی ہائی کورٹس میں بطور جج اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے، اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر کے بعد تینوں ججز نے حلف نہیں اٹھایا، جو اٹھانا ضروری تھا۔
جسٹس بابر ستار نے لکھا کہ حلف کے بغیر وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنی ڈیوٹی شروع نہیں کر سکتے تھے، ان کو حلف کے بغیر جوڈیشل اور انتظامی کام کے لحاظ سے اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج نہیں کہا جا سکتا۔
’بطور چیف جسٹس ہائیکورٹ آپ کی ذمہ داری تھی کہ تینوں ججز سے حلف لیتے‘
انہوں نے مزید کہا کہ آپ کی زیر نگرانی تینوں ججز آرٹیکل 194 کی خلاف ورزی میں بغیر حلف تین فروری سے جوڈیشل کام شروع کر چکے ہیں، آرٹیکل 194 کے تحت بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ آپ کی ذمہ داری تھی کہ آپ تینوں ججز سے حلف لیتے۔
جسٹس بابر ستار کی جانب سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق بغیر حلف ججز سے جوڈیشل اور انتظامی کام لینا بعد میں ان کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ ایڈمنسٹریشن کمیٹی کا نوٹی فکیشن اسلام آباد جوڈیشل سروس رولز 2011 کی خلاف ورزی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے مزید لکھا کہ اسلام آباد جوڈیشل سروس رولز کے مطابق ایڈمنسٹریشن کمیٹی چیف جسٹس اور 2 ججز پر مشتمل ہو گی، اس لحاظ سے 9 ویں نمبر کے جج جسٹس خادم سومرو کو کمیٹی میں شامل نہیں کر سکتے تھے۔
’بے تکے طریقے سے ایڈمنسٹریشن کمیٹی کی دوبارہ تشکیل کی گئی‘
جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا کہ بے تکے طریقے سے ایڈمنسٹریشن کمیٹی کی دوبارہ تشکیل کی گئی، ایڈمنسٹریشن کمیٹی میں سندھ اور لاہور ہائی کورٹ کے 2 ججز کو شامل کر لیا گیا، جن کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا ابھی انتظامی کوئی تجربہ نہیں۔
خط میں مزید مؤقف اپنایا گیا کہ تین دن پہلے ان کی ٹرانسفر کا نوٹی فکیشن جاری ہوا ساتھ ہی کمیٹی میں شامل کر لیا گیا، ہم تقریبا روزانہ جوڈیشل سائیڈ پر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ایگزیکٹو قانون کے مطابق شفاف طریقے سے اختیار استعمال کر سکتا ہے۔
جسٹس بابر ستار نے خط میں مزید کہا کہ آپ اتفاق کریں گے ججز بھی صوابدیدی اختیارات استعمال کرنے کے اتنے ہی پابند ہیں، جتنا ہم ایگزیکٹو کو کہتے ہیں۔
واضح رہے کہ یکم فروری کو لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ سے ایک، ایک جج کا تبادلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں کر دیا گیا تھا۔
نوٹی فکیشن کے مطابق جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کا لاہور ہائی کورٹ، جسٹس خادم حسین سومرو کا سندھ ہائی کورٹ اور جسٹس محمد آصف کا تبادلہ بلوچستان ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیا گیا۔
اس کے اگلے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں انتظامی کمیٹی تبدیل کردی گئی تھی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق عدالت کی انتظامی کمیٹی کے چیئرمین مقرر ہو گئے تھے۔
اسی طرح سینئر پیونی جج جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس خادم سومرو کو ممبران مقرر کیا گیا تھا۔