غزہ پر قبضے کا منصوبہ اور نریندر مودی کا متوقع دورہ امریکا
بنیامن نیتن یاہو کے کامیاب ترین دورہ واشنگٹن کے بعد نریندر مودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے والے دائیں بازو کے دوسرے اہم عالمی رہنما ہوں گے۔ رپورٹس کے مطابق یہ ملاقات رواں ہفتے کسی بھی دن متوقع ہے۔
نریندر مودی جانتے ہیں کہ اسرائیلی وزیر اعظم سے ملاقات سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو کی تذلیل کی تھی۔ نیتن یاہو سے متعلق بیان انہوں نے ری ٹوئٹ کیا جو اسرائیل میں خوب وائرل ہوا۔ معروف ماہر اقتصادیات پروفیسر جیفری سیکس جوکہ خود یہودی ہیں، یوکرین جنگ میں امریکی سرپرستی اور فلسطین میں نسل کشی کے لیے اسرائیل کی امداد کے سخت ناقد ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں نیتن یاہو کے لیے تضحیک آمیز الفاظ کا استعمال کیا۔
ٹرمپ نے جیفری سیکس کے بیان کی توثیق کرتے ہوئے اسے اپنے ایکس ہینڈل پر شیئر کیا تھا۔ ٹرمپ اپنے بھارتی دوست کے ساتھ بھی تضحیک آمیز رویہ اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنی تقریب حلف برداری جہاں زیادہ تر دائیں بازو کے عالمی رہنما شریک ہوئے، نریندر مودی کو مدعو نہیں کیا بلکہ اصل چوٹ تو تب لگی جب انہوں نے چینی کمیونسٹ رہنما شی جن پنگ کو تقریب میں شرکت کی دعوت دی مگر چینی صدر نے شرکت سے معذرت کی۔
اس سفارتی مسئلے کی گونج بھارتی پارلیمنٹ میں بھی سنائی دی جہاں اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے مودی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ 2020ء میں ٹرمپ کے حق میں مودی نے ہیوسٹن میں ریلی نکالی تھی لیکن جو بائیڈن وہ انتخاب جیت گئے۔ اور اب ٹرمپ کی طرف مدعو نہ کیے جانے کی شرمندگی بھی فہرست میں شامل ہوگئی ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ نے ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی اور انہیں صفِ اول میں نشست ملی۔ انہوں نے راہول گاندھی کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے صدر کی حلف برداری میں کبھی بھی سربراہِ مملکت کو شرکت کے لیے نہیں بھیجا۔
وزیر خارجہ شاید یہ حقیقت نظرانداز کرگئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت سے عالمی رہنماؤں کو پہلی بار مدعو کرکے روایات توڑی تھیں۔ مثال کے طور پر اطالوی وزیراعظم جن کے ساتھ مودی اکثر سیلفیز لیتے نظر آتے ہیں، انہیں امریکی صدر کی جانب سے دعوت نامہ موصول ہوا لیکن برطانوی وزیراعظم اور بہت سے دیگر یورپی سربراہانِ مملکت کو دانستہ طور پر نظر انداز کیا گیا۔
امریکی صدر سے ملاقات کرکے لوٹتے ہوئے نیتن یاہو بہت سے کھوکھلے وعدے اپنے ساتھ لے کر گئے۔ ٹرمپ نے یہ کہہ کر مہمان کو خوش کیا کہ امریکا غزہ کو اپنی ملکیت میں لے گا اور فلسطینیوں کو ہمسایہ ممالک میں بھیج دے گا۔
اس ملاقات نے اس قانونی پہلو کو پس پشت ڈال دیا جو اسرائیلی وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کے لیے وطن میں منتظر تھا، ساتھ ہی یہ خوف بھی تھا کہ اگر غزہ کی تباہ شدہ عمارتوں پر بمباری دوبارہ نہ ہوئی تو ان کا انتہا پسند اتحاد کا ٹوٹنا لازم ہے، خصوصاً جبکہ ٹرمپ کا بلندیوں کا خواب پہلے ہی ناکام نظر آتا ہے۔
غزہ آفر (جو دھمکی زیادہ لگ رہی ہے) کو عالمی سطح پر بالکل بھی حمایت نہیں ملی۔ تاہم یہ اس وقت بدل سکتا ہے جب مودی جو نیتن یاہو کے قریبی اتحادی سمجھے جاتے ہیں، فلسطینی زمین کے لیے طویل عرصے بعد اٹھنے والی عالمی آوازوں سے ہٹ کر ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت کردیں۔
ایک جانب جہاں فلسطین منصوبہ اخلاقی طور پر غلط ہے وہیں ٹرمپ گرین لینڈ، کینیڈا اور پاناما کینال جیسی زمینوں پر بھی نظر گاڑے ہوئے ہیں۔ یوں ان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے یہاں تک کہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں بھی جبکہ غزہ کو وہ ایک ریئل اسٹیٹ پراپرٹی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ غزہ کو ساحل کنارے ایک پُرکشش سیاحتی شہر میں تبدیل کرنے کا ان کا خواب خطے کے حالات کو مزید بگاڑے گا جوکہ پہلے ہی عدم استحکام کا شکار ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب سب سے محفوظ ملک میں واقع ٹوین ٹاورز کو تباہ کیا جاسکتا ہے تو فلسطینیوں سے چرائی ہوئی زمین پر تعمیر کی جانے والی کوئی بھی عمارت (حماس کے زیرِ زمین بنکرز کے علاوہ) اس وقت تک محفوظ نہیں جب تک فلسطینیوں کو ان کی زمین اور انصاف نہیں دیا جاتا۔
مودی کو دورہ واشنگٹن سے قبل ایک اہم حل طلب چیلنج درپیش ہے۔ وہ ایک ایسے مہرے کے طور پر جانے جاتے ہیں جو بھارت اور مغرب کے درمیان تعلق قائم کرتا ہے بالخصوص چین کے خلاف مغرب کے کام آتے ہیں۔ درحقیقت فروری 2019ء میں آخری دورہ بھارت کے دوران ٹرمپ نے بھارت کو بہت سے فوجی ہتھیار خریدنے پر آمادہ کیا تھا جن میں آبدوز کو ٹریک کرنے کے ہتھیار شامل تھے جسے چین نے اشتعال انگیز اقدام کے طور پر دیکھا۔
چین سے سرحدی تنازع پہلے ہی جاری تھا جو 5 اگست 2019ء کو بھارتی پارلیمنٹ کے اقدامات کے بعد زیادہ شدت اختیار کرگیا تھا جس میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی گئی تھی۔ جموں کشمیر کے الحاق کے بعد چین سے بات چیت کے بغیر لداخ کے نقشے میں بھی رد وبدل کی گئی جس نے چین کو تشویش میں مبتلا کیا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ شاید ٹرمپ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ معاہدہ کرلیں جو بہ ظاہر مشکل تو ہے لیکن یہ پس پردہ سفارت کاری کے لیے انتہائی اہم ہوگا۔
اس امکان کو بڑھاتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم کے ساتھ ویڈیو کانفرنس میں زور دیا کہ ان کے شی جن پنگ کے ساتھ ’ہمیشہ خوشگوار تعلقات رہے ہیں‘ اور وہ ’چین کے ساتھ چلنے‘ کے خواہش مند ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے اعلامیے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا اور چین کے ’تعلقات اچھے ہوں گے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم صرف شفافیت چاہتے ہیں۔ ہم مقابلے کے لیے یکساں مواقع چاہتے ہیں لیکن مجھے صدر شی جن پنگ بہت پسند ہیں۔ مجھے وہ ہمیشہ سے پسند ہیں‘۔ چاہے مودی کا نام 20 جنوری کے مہمانوں کی فہرست میں شامل نہیں تھا لیکن پھر بھی ٹرمپ نے کئی مواقع پر مودی کی بھی تعریف کی ہے ۔
دوسری جانب امریکا کی جانب سے جب 104 غیرقانونی بھارتی تارکین وطن کو امرتسر میں زنجیروں میں جکڑ کر بھیجا گیا تو اس نے امریکا کے قریبی اتحادی سمجھے جانے والے بھارت کی تذلیل کی۔ بھارتی حکام کے مسترد کیے جانے کے باوجود بھارت آنے والی خواتین کے ہاتھ بھی ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ اس ہتک آمیز آپریشن پر امریکا نے تقریباً 10 لاکھ ڈالرز کی رقم خرچ کی ہے جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مودی اور ٹرمپ اپنے تعلقات میں ایک دوسرے سے کیا چاہتے ہیں؟
اپنے طور پر مودی شاید امریکی نژاد سکھ رہنما کے قتل کی سازش میں انٹیلی جنس اہلکاروں کے خلاف فوجداری مقدمات ختم کرنے کی امید کر رہے ہیں۔ وہ شاید یہ بھی چاہیں کہ بھارتی ٹائیکون گوتم اڈانی پر سے کرپشن کے الزامات ہٹا لیے جائیں۔
ایک حفاظتی اسٹریٹجک اقدام کے طور پر منی پور کے وزیراعلیٰ جن پر گزشتہ دو سالوں سے مسیحی قبائلیوں کے مبینہ قتل کا الزام عائد کیا جارہا تھا، مودی کے دورے سے قبل وہ مستعفی ہوچکے ہیں۔ اس استعفیٰ کا مقصد امریکا کے بائبل بیلٹ سے تعلق رکھنے والے ٹرمپ کے حامیوں کو مطمئن کرنا ہوسکتا ہے جو سخت مذہبی خیالات رکھتے ہیں۔
مودی کے مقابلے میں ٹرمپ نے براہ راست حکمت عملی اپنائی۔ دوسری بار صدر منتخب ہونے کے بعد نریندر مودی کے ساتھ اپنی پہلی ٹیلی فونک کال پر انہوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ امریکا کے تیار کردہ مزید ہتھیار خریدے۔ وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’صدر نے بھارت پر امریکی سیکیورٹی مصنوعات کی خریداری میں اضافہ کرنے اور دونوں ممالک کے درمیان بہتر تجارتی تعلقات کی طرف بڑھنے کی اہمیت پر زور دیا‘۔
آخر میں امریکا کے لیے ایک بڑا مسئلہ برکس کے رہنما کے طور پر بھارت کا کردار ہے جسے ٹرمپ متاثر کرنے کی کوشش کریں گے۔ ٹرمپ کی جانب سے مسلسل دباؤ کی وجہ سے پاناما حال ہی میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو سے دستبردار ہوا ہے۔
ایسے میں بھارت کس پوزیشن میں ہے بالخصوص اس تناظر میں کہ جب رواں سال کے آغاز میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے نریندر مودی کے دورہ بھارت کی دعوت کو قبول کیا ہے؟ چینی سوچ رہے ہوں گے موجودہ صورتحال کتنی پیچیدہ اور کشیدہ ہوچکی ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔