موسمیاتی تبدیلی: ’جنوبی ایشیا خطے میں تمام ممالک کی تقدیر ایک جیسی ہے‘
ایک جانب لاہور سے دہلی تک مختلف شہروں کو اسموگ نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے وہیں پنجاب سے بہار تک کاشتکاروں کو بدلتے مون سون موسم کا بھی سامنا ہے جس سے زراعت کے صدیوں پرانے طریقے متاثر ہورہے ہیں۔ یہ ہمارے لیے یاد دہانی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی کوئی سرحد نہیں۔
اگرچہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ 10 ممالک میں شامل ہے لیکن یہ چیلنج پورے جنوبی ایشیا میں پھیل رہا ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی سے دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ متاثر ہوتا ہے۔ جنوبی ایشیا دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کا گڑھ بن کر سامنے آیا ہے جبکہ سائنسی شواہد ثابت کرتے ہیں کہ خطے میں رونما ہونے والی موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں منعقدہ ڈان میڈیا گروپ کے زیرِ اہتمام موسمیاتی تبدیلی پر عالمی کانفرنس آگاہی کے لیے ایک اہم قدم تھا جہاں 100 سے زائد مقررین کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے خیالات شیئر کیے گئے۔ میرے لیے اس کانفرنس کا سب سے اہم پیغام، اس کا سلوگن تھا، ’آئیے تبدیلی کا مل کر سامنا کریں‘۔
جب خطے کے ماحولیاتی بحران کی بات آتی ہے تو یہ سلوگن ایک مضبوط پیغام دیتا ہے۔ ہم جس جغرافیہ میں رہتے ہیں، وہاں ہم سب کی تقدیر ایک جیسی ہے۔ خیلج بنگال سے بحیرہ ہند تک، ہم سب ایک ایکو سسٹم کا حصہ ہیں جو ہماری تہذیبوں کو تشکیل دیتا ہے۔ قومی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ہمارا مستقبل مشترکہ ماحولیاتی نظاموں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہے۔
یہ باہمی ربط کئی طریقوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ دریاؤں کا بہاؤ پھر چاہے وہ زیادہ مقدار میں سیلاب کا باعث بنے یا خشک سالی اور قحط کا، یہ مسائل سرحدیں نہیں جانتے اور یہ یکساں طور پر جنوبی ایشیا کی کمیونٹیز کو متاثر کرتے ہیں۔
سیالکوٹ (2020ء)، اتراکھنڈ (2021ء)، نوشہرہ (2022ء)، ہنزہ اور ہماچل پردیس (2023ء) میں غیرمعمولی بارشوں نے قرب و جوار میں مقیم کمیونٹیز کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ کیسے موسمیاتی آفات کے اثرات مخصوص خطوں یا ممالک تک محدود نہیں۔
جب نیپال میں برفانی جھیلیں پھٹتی ہیں تو ان کے اثرات بہار اور بنگلہ دیش میں بھی مرتب ہوتے ہیں۔ جب سمندری طوفان یاس (2021ء) خلیج بنگال سے ٹکرایا تو اس کے اثرات اڈیشا (اڑیسہ) اور مغربی بنگال میں محسوس کیے گئے۔ سمندری طوفان بپر جوئے (2023ء) نے جب آخری وقت میں پاکستان سے ٹکرانے کا فیصلہ بدل لیا تو ٹھٹہ، بدین اور کراچی میں تیز ہواؤں کے ساتھ بارشیں ہوئیں، جس کے بعد بھارت میں گجرات جاکھاؤ پورٹ کے قریب لینڈ سلائیڈنگ ہوئی۔ ایسے مستقل چیلنجز کا مقابلہ ممالک اپنے طور پر تن تنہا نہیں کرسکتے۔
ہمارے خطے کو جن متعدد اور بڑھتے ہوئے چیلنجز کا سامنا ہے وہ مشترک ہیں۔ برفباری کے پیٹرن میں ڈرامائی تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے جبکہ گلیشیئرز اور جمی ہوئی زمینوں کے پگھلاؤ نے مسائل کو مزید سنجیدہ رخ دیا ہے۔ مون سون کا موسم جو تاریخی اعتبار سے زراعت میں مدد کرتا ہے، اب غیر متوقع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ زمینی اور زیرِ زمین پانی کی صورت حال پر خطے کا انحصار کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
خطے کے موسمیاتی پہلوؤں کے اثرات فوری ماحولیاتی اثرات سے مختلف اور زیادہ ہیں۔ روہنگیا سے کراچی تک ہجرت کے روایتی ڈھانچے میں بھی تبدیلی آئی ہے جبکہ وبائی بیماریاں جیسے افغانستان میں پولیو وائرس بہت کم وقت میں خطے میں پھیل رہا ہے اور سرحد پار اپنے تباہ کُن اثرات مرتب کرتے ہیں جو خطے کے بحران میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس نوعیت کے بحران سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر ممالک کا باہمی تعاون درکار ہے۔
ان غیر روایتی سلامتی کے خطرات کی اہمیت کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ خطرات خالصتاً اندرونی ہیں نہ مکمل طور پر بین الاقوامی۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے عالمی مباحثوں نے اکثر ہماری علاقائی اور اندرونی گفتگو کو دبایا ہے جبکہ بعض اوقات مقامی سطح پر حل تلاش کرنے اور خطے کی کوششوں پر بھی اثر پڑا ہے۔ تاہم ان چیلنجز کو ایسے حالات کی طرف لے جانے کی ضرورت نہیں ہے جہاں کسی کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہو بلکہ ایسے حل تلاش کرنے کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں جن سے تمام ممالک مستفید ہوں۔
یہ اہم اس لیے ہے کیونکہ ماحولیاتی بحران، غیر روایتی سلامتی کے خطرات کا باعث بنتا ہے جنہیں روایتی طریقوں سے حل نہیں کیا جاسکتا۔
روایتی آگاہی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ چترال سے تامل ناڈو تک خطے کے کاشتکار موسم کی پیش گوئی کے لیے مشترک روایتی طریقوں پر انحصار کرتے ہیں۔ 2022ء میں پاکستان نے جس موسمیاتی آفت کا سامنا کیا، اس سے پتا چلا کہ موسمیاتی بحران کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں ہے۔ جب دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوا تو یہ واضح ہوگیا کہ گلیشیئرز کے پگھلنے میں تبدیلی اور بالائی علاقوں میں بارش کے براہ راست اثرات زیریں علاقوں میں مقیم کمیونٹیز پر مرتب ہوتے ہیں۔
اسی طرح جب بھارتی پنجاب میں کسان فصلوں کی باقیات کو نذرِآتش کرتے ہیں تو اس سے پیدا ہونے والے اسموگ سے ہوا کا معیار خراب ہوتا ہے جبکہ یہ اسموگ ہوا کے پیٹرن اور رفتار پر انحصار کرتے ہوئے دور دراز علاقوں میں پھیلتی ہے۔ اسموگ کے اثرات لاہور، کراچی، لکھنؤ اور بہار کے چند علاقوں سمیت خطے کے مختلف مقامات پر ظاہر ہوتے ہیں۔
ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پیچیدہ، طویل مدتی اور مشترکہ کوششوں کی ضرروت ہے۔ یہ مسئلہ معلومات، معیشت اور متنوع ذمہ دار حلقوں کے درمیان تعاون کا تقاضا کرتا ہے۔ عالمی مالیاتی وسائل سے مقامی حل کو تبدیل کرنے کے بجائے مقامی علم اور تجاویز کو ترجیح دی جانی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ عالمی مالیاتی وسائل کا استعمال کیا جانا چاہیے۔
اس طرح کے مشترکہ چیلنجز کا حل، بین الاقوامی وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مقامی تجاویز کو ترجیح دینے میں ہے۔ سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح کُھلنا اور کاکس بازار سے لے کر اڈیشا اور ممبئی سے ٹھٹہ اور بدین تک، برصغیر کی ساحلی پٹی کو پُرخطر بنا رہی ہے۔ حل ان کمیونٹیز کی جانب سے سامنے آنا چاہیے جن کی نسلیں وہاں طویل مدت سے آباد ہیں۔
موسمیاتی حالات، جنوبی ایشیا کے تجارتی ماحول پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر شدید موسم کے باعث پیدا ہونے والی سبزیوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے بھارت سے ہنگامی بنیادوں پر سبزیاں درآمد کروائی جاتی تھیں۔ یہ ان لچکدار علاقائی پالیسیز کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والی قلت کے دوران فوری تجارت کی حمایت کرتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق علاقائی تجارت میں اضافے سے پاکستان کی جی ڈی پی میں ایک فیصد تک بہتری آسکتی ہے۔
اس علاقائی بحران کے حوالے سے آگاہی پھیلانے میں میڈیا کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی بنیادی طور پر ایک ترقیاتی مسئلہ ہے جس کے لیے قارئین کو گوررننس، سیاسی معیشت اور کمیونٹیز پر اس کے اثرات کو سمجھنا ہوگا۔ اگرچہ آفات کی کوریج اہم ہے لیکن عوام اب مزید گہری رپورٹنگ چاہتے ہیں کہ کس طرح موسمیاتی پالیسیز قومی ترقی سے منسلک ہیں۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ پالیسیز کس طرح موافقت پیدا کرسکتی ہیں اور منصفانہ ترقی کی حمایت کرسکتی ہیں۔
لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ چنئی پانی کی قلت سے کیسے نمٹ رہا ہے، شہری ہیٹ ویوز کی بگڑتی صورت حال کو سنبھالنے کے لیے احمد آباد کیا کررہا ہے جبکہ ڈھاکا اور ممبئی اپنی آبادی کو سیلاب سے بچانے کے لیے کیا تدابیر اپنا رہے ہیں۔ آسام میں چائے کے باغیچوں سے لے کر ملتان میں آم کے باغات تک، کیرالہ کی ماہی گیر کمیونٹی سے لے کر سوات کے پہاڑوں کے کاشتکاروں تک، موسمیاتی تبدیلی سب کو متاثر کررہی ہے۔ ایسے میں ہم سب کا ردعمل بھی مشترکہ ہونا چاہیے۔
پورے خطے میں اختراعی حل کے حوالے سے دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔ خطے بھر کی کمیونٹیز کے مجوزہ حل سے دیگر ممالک کے افراد بھی مستفید ہوسکتے ہیں۔ بہت سے ممالک میں حکومتیں موسمیاتی کمزوریوں کو کم کرنے کے لیے مقامی کوششوں کی حوصلہ افزائی اور حمایت کررہی ہیں۔ تاہم پاکستان کو مقامی حکومتیں بنانے اور انہیں وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مقامی سطح پر مزاحمت یا لچک پیدا کی جاسکے۔ یہ میڈیا کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ باقاعدہ کالمز، تجاویز اور علاقائی حل پر توجہ مرکوز کرکے خطے کو آگاہی فراہم کرے۔
ڈان کی کانفرنس کا پیغام انتہائی واضح تھا، موسمیاتی بحران کے حوالے سے ہماری کوششوں کی کامیابی کا انحصار صرف انفرادی قومی اقدامات پر نہیں بلکہ ایک خطے کے طور پر مل کر کام کرنے، ایک دوسرے کے تجربات سے سبق حاصل کرنے اور موافقت پیدا کرنے کی مشترکہ کوششوں پر ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔