علی کاظم سمیت گلگت بلتستان کے 3 معروف نعت خواں آہوں اور سسکیوں میں سپردخاک
گلگت بلتستان کے 3 نوجوان نعت خواں علی کاظم خواجہ، ان کے بڑے بھائی ندیم خواجہ اور جان علی شاہ کاظمی کو ان کے آبائی گاؤں میں سپرد خاک کردیا گیا، نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسکردو سے تعلق رکھنے والے 16 سالہ علی کاظم خواجہ، ان کے 18 سالہ بھائی ندیم خواجہ اور شگر سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ جان علی شاہ کاظمی جمعے کو خیرپور میں ایک مذہبی اجتماع میں شرکت کے بعد مذہبی رہنما حسن ترابی کے بیٹے سماجی کارکن زین ترابی اور روہڑی سے تعلق رکھنے والے عبدالغنی منگریو کے ساتھ کراچی واپس آرہے تھے کہ انڈس ہائی وے پر سان ٹاؤن کے قریب ایک ایس یو وی نے ان کی گاڑی کو مخالف سمت سے ٹکر مار دی تھی، حادثے کے نتیجے میں پانچوں افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے تھے۔
لاشوں کو منجھنڈ تعلقہ اسپتال اور بعد ازاں کراچی لے جایا گیا تھا جہاں ان میں سے موخر الذکر دو افراد کی تدفین کردی گئی تھی جبکہ جان علی شاہ کاظمی اور ان کے بھائی سمیت 3 افراد کی میتیں پی آئی اے کی پرواز کے ذریعے تدفین کے لیے اسکردو اور شگر لائی گئی تھیں۔
اسکردو انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر میتوں کو وصول کرنے کے لیے ہزاروں افراد موجود تھے، جہاں سے تینوں میتوں کو مرکزی امامیہ جامع مسجد لے جایا گیا جہاں جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے۔
ایک مقامی شہری شبی حسین نے بتایا کہ’ آج ہمارا دل ٹوٹ گیا ہے کیونکہ سندھ میں ایک المناک حادثے میں بلتستان کے دو بہترین نعت و منقبت خواں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، ہر کوئی افسردہ ہے کیونکہ اس خطے نے اپنی دو مقبول ترین آوازوں کو کھو دیا ہے جو دنیا بھر میں گونج رہی ہیں’۔
ایک اور مقامی شخص محمد عباس نے کہا کہ یہ خطے کے لیے ایک المیہ ہے کہ ایسے باصلاحیت اور معروف نعت خواں بہت کم عمری میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، وہ اس خطے کے ہیرے تھے۔
مرحومین کی نماز جنازہ انجمن امامیہ بلتستان کے صدر سید باقر الحسینی نے پڑھائی جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی، بعدازاں لاشوں کو تدفین کے لیے ان کے آبائی گاؤوں اسکردو اور شگر لے جایا گیا۔
دریں اثنا انجمن امامیہ بلتستان نے وفاقی حکومت اور سندھ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ واقعے کی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تحقیقات کرائیں۔
سوشل میڈیا پر خراج عقیدت اور تعزیت کا سلسلہ جاری رہا اور لوگوں نے مرحومین کی خدمات کو یاد کیا اور ان کی مشہور نعتیں اور منقبتیں شیئر کیں۔
علی کاظم خواجہ اسکردو کے رہائشی تھے جنہوں نے کم عمری میں ہی اسکردو میں مذہبی اجتماعات میں نعتیں پڑھنا شروع کر دی تھیں۔
خاندانی ذرائع کے مطابق وہ ہائی اسکول کے طالب علم تھے اور انہوں نے چند سال قبل منقبتیں اور نعتیں پڑھنے کی وجہ سے بین الاقوامی شہرت حاصل کی تھی، علی کاظم خواجہ اکثر مذہبی اجتماعات کے لیے اندرون و بیرون ملک کے دورے کرتے تھے اور نعتیں اور منقبتیں پڑھتے تھے۔