مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبہ کو جنسی ہراساں کرنے کے الزام میں پروفیسر گرفتار
خیبر پختونخوا کے ضلع مالاکنڈ میں ایک طالبہ کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ڈرانے دھمکانے کے الزام میں یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کو گرفتار کرکے معطل کر دیا گیا ہے۔
ضلع مالاکنڈ کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اظہر ظہور نے ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کے خلاف شکایت ملنے کے بعد اسے گرفتار کرلیا گیا اور اس وقت ملزم جیل میں ہے جب کہ واقعے کی مزید تفتیش جاری ہے۔
مالاکنڈ کے پل چوکی تھانے میں 4 فروری کو درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق علاقے کی ایک خاتون نے بتایا کہ وہ مالاکنڈ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی طالبہ ہے۔
ڈان ڈاٹ کام نے بھی ایف آئی آر کی ایک کاپی دیکھی ہے جس کے مطابق مقدمہ شام 4 بج کر 40 منٹ پر درج کیا گیا جب کہ واقعہ کا وقت 3:30 بجے بتایا گیا۔
ایف آئی آر میں پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 354 (خاتون کی عزت کو مجروح کرنے کے ارادے سے اس پر حملہ آور ہونا)، 365 بی (اغوا یا خاتون کو شادی کے لیے مجبور کرنا وغیرہ) اور 506 (مجرمانہ دھمکی کے لیے سزا) کا استعمال کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں پی پی سی کی دفعات 452 اور 511 بھی شامل ہیں۔
خاتون نے الزام لگایا ہے کہ واقعہ کے دن لیکچرار اس کے گھر میں داخل ہوا، زبردستی اس کا ہاتھ پکڑا اور اہل خانہ کے سامنے اسے گھسیٹنے کی کوشش کی جب کہ ملزم نے اسے شادی سے انکار کرنے پر ’سنگین نتائج‘ کی دھمکی دینے کے بعد چھوڑ دیا۔
شکایت کنندہ نے ایف آئی آر میں الزام عائد کیا ہے کہ پشاور کا رہائشی ایک پروفیسر گزشتہ کئی ماہ سے میرا پیچھا کر رہا ہے، مجھے ہراساں کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور جسمانی تشدد کی کوشش کر رہا ہے۔ خاتون کا کہنا تھا کہ میں نے یونیورسٹی انتظامیہ کو کئی بار اس حوالے سے آگاہ کیا۔
دوسری جانب، یونیورسٹی کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق یونیورسٹی کی انسداد ہراسمنٹ کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا، جس میں متاثرہ کو ذاتی طور پر سنا گیا تھا۔
پریس ریلیز میں کہا گیا کہ کمیٹی مزید فیصلوں کے لیے یونیورسٹی سنڈیکیٹ کو سفارشات کے ساتھ باضابطہ طور پر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
مزید کہا گیا کہ یونیورسٹی آف ملاکنڈ میں ہراسانی کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے اور اس کا مقصد محفوظ، منصفانہ اور شفاف تعلیمی ماحول کو برقرار رکھنا ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مالاکنڈ یونیورسٹی غیر جانبدارانہ تحقیقات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے اور تمام دستیاب شواہد کی روشنی میں اس کیس کو انجام تک پہنچایا جائے گا۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق ایڈیشنل سیکریٹری ایڈمنسٹریشن آصف رحیم اور سٹی پولیس افسر سونیا شمروز پر مشتمل ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو ان واقعات کی تحقیقات کرے گی۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی جائے وقوعہ کا دورہ کرے گی اور متعلقہ حقائق اور تمام فریقوں کے بیانات حاصل کرے گی اور وہ کسی بھی شخص یا محکمے یا تنظیم سے مدد طلب کر سکتی ہے جب کہ ڈی سی اور ڈی پی او لوئر دیر کمیٹی کو انتظامی معاونت فراہم کریں گے۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی شواہد پر 15 دن کے اندر رپورٹ پیش کرے گی اور اگر ضرورت پڑی تو متعلقہ حکام سے باضابطہ مقدمہ درج کرنے یا کارروائی کا کہے گی۔