کراچی: ڈیفنس کے گیسٹ ہاؤس میں دوست کے ہاتھوں ایک اور دوست قتل
کراچی کے علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں نجی گیسٹ ہاؤس میں جھگڑے کے دوران فائرنگ سے ایک نوجوان جاں بحق، جب کہ دوسرا زخمی ہوگیا۔
ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق جاں بحق ہونے والے نوجوان کی شناخت 30 سالہ مصطفی کوثر اور زخمی کی شناخت 40 سالہ مجاہد علی کے نام سے ہوئی ہے، یہ واقعہ ڈی ایچ اے فیز 7 کے ’میری گولڈ گیسٹ ہاؤس‘ میں پیش آیا، ہلاک اور زخمی ہونے والے دونوں افراد اپنے ایک دوست کے ساتھ کاروبار کے سلسلے میں گیسٹ ہاؤس میں مقیم تھے۔
ڈیفنس کے ایس ایچ او شاہد تاج نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ یہ واقعہ ’کاروباری تنازع‘ کا نتیجہ ہے، تاہم انہوں نے زخمی ہونے والے مجاہد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا تھا، جب کہ ان کا تیسرا دوست عبید موقع سے فرار ہوگیا۔
پولیس افسر نے بتایا کہ یہ تینوں دوست کسی کاروبار کے سلسلے میں راولپنڈی سے کراچی آئے تھے، 4 دن پہلے سوک کار میں سفر کرتے ہوئے شہر قائد پہنچے اور گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔
ایس ایچ او نے بتایا کہ مجاہد منگل کی شام 4 بجے یہ کہہ کر کمرے سے باہر آیا کہ وہ واش روم میں گر گیا ہے اور اسے چوٹیں آئی ہیں۔
افسر نے بتایا کہ گیسٹ ہاؤس کا عملہ کچھ گڑبڑ محسوس کرتے ہوئے کمرے میں گیا، جہاں انہوں نے مصطفیٰ کو گولیوں کے زخموں کے ساتھ مردہ حالت میں دیکھا، پولیس کے ذریعے حاصل کردہ سی سی ٹی وی فوٹیج سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا تیسرا دوست عبید پہلے ہی صبح 10 بجے وہاں سے چلا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جاں بحق ہونے والے شخص کی پستول اور کار غائب ہے، زخمی اور فرار ہونے والے دونوں افغان شہری تھے، جب کہ متوفی راولپنڈی کا رہائشی تھا۔
پولیس افسر نے کہا کہ متوفی کے والد کوثر نے پولیس کو فون پر بتایا کہ دوستوں کے درمیان ’پیسوں کے لین دین‘ پر کچھ تنازع تھا، ان کے بیٹے کے پاس کافی نقد رقم تھی، جو غائب ہے۔
والد نے کہا کہ پیر کی رات ان کے درمیان گرما گرمی ہوئی تھی۔
ابتدائی تفتیش کے دوران زخمی ملزم نے پولیس کو بتایا کہ وہ مشترکہ طور پر ایل ای ڈی کی خرید و فروخت کر رہے تھے۔
لاشوں اور زخمیوں کو طبی و قانونی کارروائی کے لیے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر منتقل کردیا گیا، پولیس کے کرائم سین یونٹ کو جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھا کرنے کے لیے بلایا گیا، گولیوں کے خول بھی برآمد کرلیے گئے ہیں۔
پتھر گرنے سے مزدور ہلاک
کراچی کے علاقے نصرت بھٹو کالونی کے قریب پتھر نکالنے کے لیے کھدائی کے دوران پہاڑی سے نیچے گرنے والے بھاری پتھر سے ایک مزدور جاں بحق ہوگیا۔
ریسکیو 1122 کے اہلکار حسان خان نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ پہاڑیوں پر پتھر کاٹنے کے لیے بھاری مشینری کا استعمال کیا جا رہا تھا کہ لینڈ سلپ کے دوران ایک بڑا پتھر نیچے گر گیا۔
انہوں نے بتایا کہ اطلاع ملنے کے بعد ان کی شہری ریسکیو ٹیم موقع پر پہنچی اور ملبے کو ہٹایا اور پتھروں کے نیچے دبی لاش کو نکال لیا، مزدور کی شناخت 42 سالہ غنی الرحمٰن کے نام سے ہوئی۔
ریسکیو افسر نے کہا کہ انہیں پتہ چلا ہے کہ بھاری مشینری ”تجارتی مقاصد“ کے لیے استعمال کی جا رہی تھی، تاہم انہیں بتایا گیا کہ وہاں واقع سنگ مرمر کی دکانوں کے لیے پتھر کاٹے جا رہے تھے، جب کہ بعض اوقات یہ سرگرمی ’راہ ہموار کرنے‘ کے لیے بھی کی جا رہی ہوتی ہے۔
اس واقعے کے بعد 3 متعلقہ تھانوں کے دائرہ اختیار پر بھی تنازع کھڑا ہوگیا۔
منگھوپیر تھانے کے ایس ایچ او عمران احمد خان نے بتایا کہ ان کے اور 2 دیگر تھانوں سرسید اور شارع نورجہاں نے ان حالات کا پتہ لگانے کے لیے اپنی پولیس ٹیمیں بھیجی تھیں، جن کی وجہ سے غنی الرحمٰن کی موت ہوئی۔
ایس ایچ او نے بتایا کہا کہ اس علاقے میں ریتی بجری نکالنے کے لیے کرشنگ پلانٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرشنگ کا کام جاری تھا جب بھاری پتھر ایک کمپنی کے احاطے میں گر گئے جس سے ان کے کارکن کی موت ہوگئی۔