مصطفیٰ عامر کے بعض اعضا غائب، قبرکشائی بورڈ ’وجہ موت‘ بتانے سے قاصر
6 جنوری کو ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں دوستوں کے ہاتھوں اغوا کے بعد بے دردی سے قتل کیے جانے والے 23 سالہ مصطفیٰ عامر کی قبر کشائی جوڈیشل مجسٹریٹ کی موجودگی اور میڈیکل بورڈ کی نگرانی میں کی گئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ سید نے بتایا کہ ایدھی قبرستان مواچھ گوٹھ میں نامعلوم طور پر جلی ہوئی میت نکالی گئی، جسے بری طرح جلایا گیا تھا، اور اس کے اعضا غائب تھے۔
ڈی این اے پروفائلنگ اور کراس میچنگ کے ذریعے لاش کی شناخت کرنے کے لیے کیمیائی تجزیے کے لیے مجموعی طور پر 11 نمونے جمع کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اس بات کے بہت کم امکانات ہیں کہ قبر کشائی بورڈ موت کی وجہ کے بارے میں کوئی رائے قائم کر سکے گا۔
اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کے ایس ایس پی انیل حیدر نے ڈان کو بتایا کہ نمونے جامعہ کراچی کی لیبارٹری میں بھیجے گئے ہیں، توقع ہے ایک ہفتے میں نتائج مل جائیں گے۔
گرفتار 2 ملزمان ارمغان اور شیراز سے تفتیش کے بارے میں سی آئی اے کے ڈی آئی جی مقدس حیدر نے ڈان کو بتایا کہ یہ قتل ’مالی مسئلے‘ کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تفتیش کاروں نے ارمغان سے پوچھ گچھ کی کہ اس نے لاش اور مصطفیٰ کی گاڑی کو ٹھکانے لگانے کے لیے حب کا انتخاب کیوں کیا؟ تاہم وہ ’معقول‘ جواب نہیں دے رہا تھا، حالانکہ اس نے اعتراف کیا کہ یہ اس علاقے کا ان کا پہلا دورہ تھا۔
ڈی آئی جی نے کہا کہ اس سے معاملے میں دیگر مشتبہ افراد کے ملوث ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔
مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈی ایچ اے میں لاپتا ہوگئے تھے، پولیس نے ارمغان اور شیراز کو گرفتار کیا تھا اور تفتیش کے دوران معلوم ہوا تھا کہ مصطفیٰ کو گمشدگی کے پہلے ہی دن قتل کیا گیا تھا اور حب کے علاقے دوریجی میں اس کی اپنی ہی گاڑی کی ڈگی میں لاش کو آگ لگا دی گئی تھی۔
مقدمات کی فائلیں واپس کرنے کا حکم
انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) کے انتظامی جج نے اپنے رجسٹرار کو مصطفی ٰ عامر کے مبینہ اغوا برائے تاوان، ان کاؤنٹر اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے سے متعلق کیس کی 3 فائلیں واپس کرنے کا حکم دے دیا۔
اس سے قبل سندھ ہائی کورٹ نے 18 فروری کو اے ٹی سیز کے انتظامی جج اور اے ٹی سی ون کے پریزائیڈنگ افسر کی جانب سے جاری کیے گئے مرکزی ملزم ارمغان کی جیل تحویل سمیت متعلقہ احکام کو کالعدم قرار دے دیا تھا، سندھ ہائی کورٹ نے اے ٹی سی ٹو کے جج کو قانون کے مطابق نیا حکم جاری کرنے کی ہدایت کی۔
اے ٹی سیز کے رجسٹرار کو لکھے گئے خط میں انتظامی جج نے کہا کہ 18 فروری کو اے ٹی سی ٹو کو ان کی عدالت سے کیس کی فائلیں موصول ہوئیں، تاہم اس کے بعد سے انہیں واپس نہیں کیا گیا ہے۔
مزید کہا گیا کہ 20 فروری کو عدالت کے ایک معاون اطہر نے انہیں بتایا کہ کیس کی فائلیں دستیاب نہیں ہیں اور ممکنہ طور پر جج کے چیمبر میں کہیں بند ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ اسسٹنٹ نے چارج رپورٹ (خط) بھی پیش کی جس میں اے ٹی سی ٹو جج کے کنٹریکٹ کی مدت 18 فروری کو ختم ہونے کی نشاندہی کی گئی تھی۔
اے ٹی سی کے انتظامی جج نے رجسٹرار کو ہدایت کی کہ وہ اے ٹی سی ٹو کی جامع انوینٹری تیار کریں اور 25 فروری تک رپورٹ پیش کریں۔