• KHI: Zuhr 12:45pm Asr 4:54pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 4:17pm
  • ISB: Zuhr 12:21pm Asr 4:20pm
  • KHI: Zuhr 12:45pm Asr 4:54pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 4:17pm
  • ISB: Zuhr 12:21pm Asr 4:20pm

آئی ایم ایف کا تکنیکی مشن ایک ارب ڈالر کی ’کلائمیٹ فنانسنگ‘ پر آج بات چیت کرے گا

شائع February 24, 2025
2022 کے سیلاب کے بعد تعمیر نو کی ضروریات کا تخمینہ مالی سال 23 کے بجٹ قومی ترقیاتی اخراجات سے 1.6 گنا زائد لگایا گیا — فائل فوٹو
2022 کے سیلاب کے بعد تعمیر نو کی ضروریات کا تخمینہ مالی سال 23 کے بجٹ قومی ترقیاتی اخراجات سے 1.6 گنا زائد لگایا گیا — فائل فوٹو

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا تکنیکی مشن پاکستان کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایک ارب ڈالر سے زائد کی اضافی فنانسنگ کی درخواست پر آج اسلام آباد میں بات چیت کا آغاز کرے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس بات چیت کے بعد آئندہ ہفتے کے اوائل میں پالیسی کا جائزہ لیا جائے گا، جس میں جاری 7 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت حکام کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔

آئی ایم ایف کی ٹیکنیکل ٹیم زیادہ تر اہم وزارتوں بشمول منصوبہ بندی، خزانہ، موسمیاتی تبدیلی، پیٹرولیم اور آبی وسائل کے ساتھ ساتھ فیڈرل بورڈ آف ریونیو، ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسیوں اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ رابطے میں رہے گی۔

اسلام آباد میں آئی ایم ایف کے ریزیڈنٹ نمائندے ماہیر بنیسی نے مزید تفصیلات بتائے بغیر تصدیق کی کہ اب سے تین ہفتوں تک ملاقاتیں جاری رہیں گی۔

آئی ایم ایف کے عملے کی ایک ٹیم مارچ کے وسط میں پاکستان کا دورہ کرے گی، جہاں وہ پاکستان کے توسیعی فنڈ سہولت کی معاونت سے چلنے والے پروگرام کے تحت پہلے جائزے اور حکام کی جانب سے لچک اور پائیداری سہولت (آر ایس ایف) انتظامات کے تحت امداد کی درخواست پر تبادلہ خیال کرے گی۔

اس سلسلے میں ایک ٹیکنیکل رواں ہفتے پاکستان آئے گی جو آر ایس ایف کے ممکنہ انتظامات سے متعلق تکنیکی امور پر تبادلہ خیال کرے گی۔

سرکاری ذرائع نے بتایا کہ متعلقہ حکام خاص طور پر منصوبہ بندی اور خزانہ کی وزارتوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پالیسی مشورے کے مطابق آنے والے بجٹ کے لیے ماحولیات سے متعلق پبلک انویسٹمنٹ مینجمنٹ اسیسمنٹ (سی-پیما) کے لیے دستاویزات تیار کی ہیں۔

39 ماہ پر محیط ای ایف ایف کے پہلے 2 سالہ جائزے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اب تک صرف ایک اسٹرکچرل بینچ مارک مکمل کیا ہے، تاہم بدلتے ہوئے ملکی اور بین الاقوامی میکرو اکنامک حالات کی وجہ سے کچھ اہداف حاصل نہیں کیے جاسکے۔

واحد بقایا بینچ مارک دسمبر کے آخر تک ساورن ویلتھ فنڈ (ایس ڈبلیو ایف) میں ضروری ترامیم سے متعلق ہے، حالانکہ گورننس اسٹرکچر اور مالی تحفظ کے بارے میں ان اداروں کی دیگر ذیلی شرائط پہلے ہی پوری کی جا چکی ہیں۔

وزارت منصوبہ بندی نے وفاقی وزارتوں اور صوبوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو مستقبل کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے منصوبوں کے انتخاب کے معیار اور طریقہ کار سے بھی آگاہ کیا ہے۔

آئندہ بجٹ کے آغاز میں پی ایس ڈی پی کے منصوبوں کے انتخاب کے لیے غور کیے جانے والے عوامل میں اسٹریٹجک اور بنیادی جاری منصوبے، 80 فیصد سے زائد اخراجات کے ساتھ جاری منصوبے اور حقیقت پسندانہ تکمیل کے تخمینے شامل ہوں گے۔

آئندہ بجٹ میں پی ایس ڈی پی منصوبوں کے انتخاب کے لیے غور کیے جانے والے عوامل میں اسٹریٹجک اور بنیادی جاری منصوبے، حقیقت پسندانہ تکمیل کے تخمینے کے ساتھ 80 فیصد سے زائد اخراجات کے ساتھ جاری منصوبے، غیر معمولی اور اعلیٰ اسکورنگ انفرا اسٹرکچر منصوبے، ورکنگ پارٹی کی سطح پر پہلے سے جانچ پڑتال کے بعد منظور شدہ منصوبے، مناسب رقم مختص کرنے والے غیر ملکی فنڈز والے منصوبے اور 20 کم ترقی یافتہ اضلاع میں صوبائی منصوبے شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ماحولیات سے متعلق اور ماحولیاتی لچک والے منصوبے بھی پی ایس ڈی پی کا حصہ ہوں گے۔

آر ایس ایف کے تحت فنڈنگ ان ممالک کو فراہم کی جاتی ہے جو موافقت کے ذریعے ماحولیات کی تباہ کاریوں کے خلاف لچک پیدا کرنے کے لیے اعلیٰ معیار کی اصلاحات کا عہد کرتے ہیں، اور یہ رقم 30 سال کی مدت کے لیے ہوتی ہے، جس میں 10 سال کی رعایتی مدت بھی شامل ہے، اور ای ایف ایف شرائط سے کم شرح سود پر یہ رقم دی جاتی ہے۔

گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان نے باضابطہ طور پر آئی ایم ایف سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے 7 ارب ڈالر کے ای ایف ایف کو مزید ایک ارب 20 کروڑ ڈالر بڑھائے۔

ماحولیاتی لچک کی فنڈنگ

آئی ایم ایف پہلے ہی پاکستان کو مشورہ دے چکا ہے کہ وہ ہر سال جی ڈی پی کا ایک فیصد (موجودہ سال کے تخمینے کے مطابق ایک کھرب 24 ارب روپے سے زائد) موسمیاتی لچک اور موافقت کی اصلاحات میں سرمایہ کاری کرے تاکہ شدید موسمی حالات، خاص طور پر سیلاب کے بار بار اور بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے، معاشی ترقی کو برقرار رکھنے اور عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے تیاری کی جاسکے۔

آئی ایم ایف کا ماننا ہے کہ ماحولیات سے مطابقت رکھنے والے بنیادی ڈھانچے میں اس طرح کی سرمایہ کاری قدرتی آفات کے خطرات کے منفی نمو کے اثرات کو ایک تہائی تک کم کر سکتی ہے، جب کہ تیز اور زیادہ مکمل بحالی کو یقینی بنا سکتی ہے۔

آئی ایم ایف نے نوٹ کیا کہ موافقت کے بنیادی ڈھانچے میں جی ڈی پی کا تقریباً ایک فیصد سرمایہ کاری پاکستان کی ماحولیاتی لچک میں اضافہ کرے گی، یہ سرمایہ کاری قدرتی آفات کے اثرات کو تقریباً ایک تہائی تک کم کرے گی اور پاکستان کو اس کی سابقہ جی ڈی پی کی سطح پر زیادہ تیزی سے واپس لائے گی۔

سی پیما ایکشن پلان کے مطابق عوامی سرمایہ کاری کی کارکردگی میں اضافے سے اس طرح کی لچک میں مزید بہتری آئے گی۔

حکومت کی جانب سے ’سی پیما‘ کو اپنایا گیا ہے جس کی بنیاد پر پاکستان پہلے ہی آئی ایم ایف سے مزید فنانسنگ کی خواہش کا اظہار کر چکا ہے، اور بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹ کے آپشنز پر غور کر رہا ہے۔

آئی ایم ایف نے اندازہ لگایا ہے کہ ماحولیاتی لچک بڑھانے کے لیے درکار اضافی سرمایہ کاری قرضوں کی سطح کو معتدل طور پر بلند کرنے کا باعث بنے گی، ایک ایسی صورتحال جس میں مالیاتی عوامل – کھپت اور انکم ٹیکس نے اس طرح کے خطرے کا جواب دیا ہے، بحالی کے بعد عوامی قرضوں کو نیچے کی طرف لے جائے گی، حالانکہ کسی بڑی قدرتی آفت کے پیش نظر اس طرح کی پالیسی قابل عمل یا مطلوبہ نہیں ہوسکتی۔

آئی ایم ایف کا ماننا ہے کہ مالیاتی استحکام اور مالیاتی ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر مزید پیش رفت، مالیاتی گنجائش کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہے، جو اس طرح کے جھٹکے کو برداشت کرنے کے لیے ضروری ہوگی۔

ڈھانچہ جاتی کمزوریاں

آئی ایم ایف کے مطابق، پاکستان کا معیار زندگی کئی دہائیوں سے گر رہا ہے، اور 1980 کی دہائی کے اوائل میں اسی طرح کے آغاز کے باوجود، پاکستانیوں کی آمدنی جمود کا شکار تھی، اور علاقائی ہم منصبوں سے پیچھے رہ گئی تھی، اس کے ساتھ ساتھ غربت کی شرح بلند رہی اور سماجی ترقی کے اشاریے بھی اپنے ہم عصروں سے پیچھے رہ گئے۔

اس کے ساتھ کمزور انسانی سرمائے کے نتائج، کم مالی صلاحیت، پسندیدہ صنعتوں کے لیے تحفظ، اور بڑے پیمانے پر ریاستی اثر و رسوخ تھا، انسانی سرمائے اور کارکردگی سے حاصل ہونے والے فوائد سے ترقی میں حصہ کم رہا، صحت اور تعلیم کے اشاریے، اگرچہ حالیہ برسوں میں بہتر ہوئے ہیں، اب بھی علاقائی اور کم متوسط آمدنی والے اپنے جیسے ممالک سے پیچھے ہیں۔

جی ڈی پی کے حصے کے طور پر انسانی سرمائے کے اخراجات میں مسلسل کمی آئی ہے، ان ساختی کمزوریوں کے نتائج بڑھتی ہوئی ماحولیاتی کمزوری کی وجہ سے بڑھ گئے ہیں۔

پاکستان کو عالمی اوسط سے کہیں زیادہ درجہ حرارت کا سامنا ہے، اس سے موسمیاتی تغیرات میں اضافہ ہوگا اور انتہائی واقعات بڑھیں گے جن میں پانی کی دستیابی میں کمی، زیادہ شدید اور طویل خشک سالی، گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے ساتھ زیادہ متغیر اور شدید مون سون، ساحلی آبادیوں اور بنیادی ڈھانچے پر قبضہ کرنے والے سمندر کی سطح میں اضافہ شامل ہے۔

اس طرح کی تبدیلی کے منفی میکرو اکنامک نتائج پہلے ہی محسوس کیے جاچکے ہیں، ماحولیات اور موسم سے متعلق آفات، جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جس کے نتیجے میں 1992 سے 2021 کے دوران 29 ارب 30 کروڑ ڈالر کا معاشی نقصان ہوا، جو 2020 کے جی ڈی پی کے 11.1 فیصد کے برابر ہے، جس نے ترقیاتی فوائد کو سست کردیا۔

2022 کے سیلاب سے ایک ہزار 700 افراد ہلاک ہوئے تھے، 80 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے، غربت کی شرح میں 4 فیصد پوائنٹس تک اضافہ ہوا، اور معاشی نقصانات کو مالی سال 22 کے جی ڈی پی کے 4.8 فیصد کے مساوی بڑھادیا۔

2022 کے سیلاب کے بعد تعمیر نو کی ضروریات کا تخمینہ مالی سال 23 کے بجٹ قومی ترقیاتی اخراجات سے 1.6 گنا زائد لگایا گیا ہے، پاکستان کی کمزور شہری منصوبہ بندی، بنیادی ڈھانچے اور آبی وسائل کے انتظام کی وجہ سے اس تباہی میں مزید اضافہ ہوا۔

کارٹون

کارٹون : 25 فروری 2025
کارٹون : 24 فروری 2025