• KHI: Zuhr 12:45pm Asr 4:54pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 4:17pm
  • ISB: Zuhr 12:21pm Asr 4:20pm
  • KHI: Zuhr 12:45pm Asr 4:54pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 4:17pm
  • ISB: Zuhr 12:21pm Asr 4:20pm

اہل خانہ نے مصطفیٰ عامر کی نماز جنازہ کے بعد ڈیفنس فیز 8 میں تدفین کر دی

شائع February 24, 2025
مصطفیٰ عامر کی نماز جنازہ ڈی ایچ اے کی مقامی مسجد میں ادا کی گئی — فائل فوٹو: ڈان نیوز
مصطفیٰ عامر کی نماز جنازہ ڈی ایچ اے کی مقامی مسجد میں ادا کی گئی — فائل فوٹو: ڈان نیوز

کراچی کے علاقے ڈیفنس سے چند روز قبل اغوا کے بعد قتل کیے جانے والے 23 سالہ مصطفیٰ عامر کے اہل خانہ نے لاوارث لاشوں کے قبرستان کی نامعلوم قبر سے نکالی گئی لاش ملنے کے بعد اتوار کے روز اس کی تدفین کر دی۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ان کی نماز جنازہ ڈی ایچ اے کی مقامی مسجد میں ادا کی گئی اور انہیں ڈی ایچ اے فیز 8 قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

قبل ازیں ضروری قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعد لاش ان کے اہل خانہ کے حوالے کی گئی تھی۔

ایدھی فاؤنڈیشن کے ترجمان سعد ایدھی نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے پولیس اور ڈاکٹروں کی منظوری سے لاش اتوار کو تدفین کے لیے اہل خانہ کے حوالے کی، جنہوں نے کہا کہ قانونی کارروائی کے لیے مزید کسی ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہے۔

نوجوان کو 6 جنوری کو ڈی ایچ اے سے اغوا کیا گیا تھا اور دو ہفتے بعد اس کی والدہ کو تاوان کی کال موصول ہوئی تھی۔ تفتیش کے نتیجے میں پولیس نے دو ملزمان ارمغان اور شیراز کو گرفتار کیا تھا، جنہوں نے انکشاف کیا تھا کہ مصطفیٰ کو ڈی ایچ اے میں قتل کیا گیا تھا اور انہوں نے حب میں اس کی لاش اور اس کی گاڑی کو آگ لگا دی تھی۔

بلوچستان پولیس نے جلی ہوئی گاڑی سے لاش برآمد کی تھی اور لاوارث لاشوں کو ان کے قبرستان میں تدفین کے لیے ایدھی فاؤنڈیشن کے حوالے کیا تھا۔

بعد ازاں لاش کو میڈیکل بورڈ نے شناخت کے لیے ڈی این اے نمونے جمع کرنے کے لیے قبرستان سے نکال لیا تھا، بعد ازاں کراچی یونیورسٹی کی لیبارٹری نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لاش کے ڈی این اے نمونے مصطفیٰ کی والدہ سے میچ کر گئے تھے۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔

25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔

بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔

ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔

ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔

ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔

کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔

بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔

دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔

تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔

پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔

کارٹون

کارٹون : 25 فروری 2025
کارٹون : 24 فروری 2025