پیٹرولیم ڈیلرز کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرنے کے حکومتی منصوبے پر ملک گیر ہڑتال کی دھمکی
آل پاکستان پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن (اے پی پی ڈی اے) نے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر تیل کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرنے کے حکومتی منصوبے کے خلاف ملک گیر ہڑتال کی دھمکی دے دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیٹرولیم ڈویژن اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) سے مجوزہ آزادی نے پاکستان کی تیل کی مارکیٹ پر غیر ملکی بالادستی کے خدشات کو جنم دیا ہے۔
ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس کے بعد ایک بیان میں اے پی پی ڈی اے نے متنبہ کیا کہ ڈی ریگولیشن سے ملک کی تیل مارکیٹ کا کنٹرول غیر ملکی اداروں کے حوالے کر دیا جائے گا جس سے توانائی کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک میں آزاد منڈی کے لیے درکار تیل ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور موجودہ حالات میں اس طرح کا فیصلہ خودکشی کے مترادف ہوگا لہٰذا حکومت کو اس تجویز کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے۔
پیٹرولیم ڈیلرز نے حکومت کو اس تباہ کن اقدام سے باز رکھنے کے لیے ملک گیر ہڑتال کا انتباہ دیا ہے۔
ایسوسی ایشن کے ترجمان حسن شاہ کا کہنا ہے کہ ڈی ریگولیشن کا افسوسناک فیصلہ اوپر سے نیچے تک پوری سپلائی چین کو متاثر کرے گا اور بالآخر ایک مضبوط غیر ملکی کھلاڑی کو پاکستانی تیل کی مارکیٹ پر اجارہ داری مل جائے گی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی آئل ریفائنریوں کے پاس بند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا کیونکہ ان کے پاس مضبوط غیر ملکی کھلاڑیوں سے مقابلہ کرنے کی مالی صلاحیت نہیں ہے۔
حسن شاہ نے اس بات پر زور دیا کہ مسابقت کے تمام امکانات کو ختم کرنا اور اسے ایک ملٹی نیشنل کمپنی پر چھوڑدینا ملک کے بہترین مفاد میں نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ لبریکنٹس اور ہائی آکٹین بلینڈنگ کمپونینٹ (ایچ او بی سی) کی ڈی ریگولیشن سے صارفین کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے، لیکن اس کے نتیجے میں کارٹیلائزنگ ہوئی ہے جس میں کچھ کمپنیاں مارکیٹ شیئر کے لیے مقابلہ کر رہی ہیں۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ اس اقدام کے نتیجے میں غیر معمولی افراط زر اور شرح تبادلہ میں کمی بھی ہوگی، جس سے حکومت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
حسن شاہ نے کہا کہ چونکہ مقامی تیل کی مارکیٹ بہت غیر متوقع ہے لہٰذا کسی کو بھی ایندھن کی قیمتوں کو منظم کرنے کا مکمل اختیار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کے نتیجے میں مالی تباہی ہوگی۔
انہوں نے دلیل دی کہ چونکہ تیل قومی سلامتی کے لیے اہم ہے لہٰذا وزارت دفاع کو اس طرح کے اقدامات کے اسٹریٹجک اثرات کا جائزہ لینا چاہیے، اس کے ساتھ ہی حکومت اور مرکزی بینک کو اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ڈی ریگولیشن سے افراط زر اور روپے کی قدر پر کیا اثر پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ پالیسی سازوں کو کسی کمپنی کو خوش کرنے کے لیے ملک کی توانائی کی سلامتی کے ساتھ نہیں کھیلنا چاہیے۔
حسن شاہ نے دعویٰ کیا کہ ڈی ریگولیشن سے مختلف مدات میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوگا جو کاروباری اداروں اور عام لوگوں کے لیے برا ہوگا۔
انہوں نے واضح کیا کہ مغربی ممالک نے ہموار فراہمی کو یقینی بنانے کے بعد ایندھن کی فری مارکیٹ پرائسز کو اپنایا ہے، سپلائی چین کی رکاوٹوں کو سنبھالنے کے لیے وہ مہینوں کا ایندھن ہاتھ میں رکھتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان 15 دن سے زیادہ تیل ذخیرہ نہیں کر سکتا، خاص طور پر چھوٹے شہروں میں تقریباً ہر مہینے قلت ہوتی ہے، صرف سخت ضابطے ہی ریفائنریز، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور پٹرول پمپس کو ایندھن کی قیمتوں میں غیر قانونی طور پر اضافہ کرنے سے روک سکتے ہیں۔
انہوں نے نوٹ کیا کہ کمزور صارفین کو فائدہ اٹھانے کی اجازت دینے سے مارکیٹ میں عدم استحکام پیدا ہوگا اور تقریباً ہر چیز کی لاگت متاثر ہوگی۔