• KHI: Asr 4:56pm Maghrib 6:34pm
  • LHR: Asr 4:21pm Maghrib 6:01pm
  • ISB: Asr 4:24pm Maghrib 6:05pm
  • KHI: Asr 4:56pm Maghrib 6:34pm
  • LHR: Asr 4:21pm Maghrib 6:01pm
  • ISB: Asr 4:24pm Maghrib 6:05pm

’پاکستان میں 60 سال پرانے نکاح نامہ فارم کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے‘

شائع March 1, 2025 اپ ڈیٹ March 1, 2025 02:43pm

شادی، جوڑے کے لیے خوشی کا موقع ہوتا ہے۔ اس موقع میں شامل خاندان اسے یادگار بنانے کے لیے انتظامات کرتے ہیں۔ وہ ان تقریبات پر بہت سا پیسہ اور دیگر وسائل خرچ کرتے ہیں۔ تاہم ان تقاریب کے درمیان نکاح نامے کی اہمیت کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے جو معاشرے میں شادی کو قانونی حیثیت دیتا ہے۔

شادی میں دو افراد کے درمیان معاہدہ طے ہوتا ہے جبکہ نکاح نامہ وہ سرکاری دستاویز ہے جو شادی کو باقاعدہ رسمی بناتا ہے۔

تقریباً تمام لوگ اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار شادی کا معاہدہ ضرور کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف ان کی نجی زندگی کو متاثر کرتا ہے بلکہ یہ دیگر معاملات کے علاوہ جہیز، مالی امداد، جائیداد کی وراثت اور یہاں تک کہ شناختی کارڈ پر ان کے اسٹیٹس کو بھی متاثر کرتا ہے۔ چونکہ شادی بہت سے حقوق اور ذمہ داریوں کا نام ہے، اس لیے دونوں فریقوں کی حفاظت اور تنازعات یا ان کے حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے شادی کا معاہدہ واضح اور مؤثر ہونا چاہیے۔

نکاح نامہ ایک انتہائی اہم دستاویز ہے۔ اگرچہ اسلام میں شادی کی تکمیل کے لیے کسی تحریری دستاویز کی شرط نہیں ہے لیکن اسلام زندگی کے اہم معاملات کے لیے دستاویزات بنانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ تو نکاح نامہ شادی کا ایک اہم ثبوت ہوتا ہے۔

قیامِ پاکستان سے قبل نکاح غیررسمی طور پر ہوتے تھے اور جس خطے میں آج پاکستان ہے وہاں اسے دستاویز کرنے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ خاندان کے بزرگ یا معتبر مقامی قاضی یا عالم نکاح کرواتے۔ اس تقریب میں قرآن، احادیث اور دعائیں پڑھی جاتیں۔ اس وقت نکاح نامے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ تاہم نکاح کو دستاویز کرنے کی ضرورت ہمیشہ محسوس ہوتی تھی کیونکہ وقتاً فوقتاً شادی سے متعلقہ مسائل سامنے آتے رہتے تھے جنہیں خوش اسلوبی سے طے کرنے کی ضرورت تھی۔

پاکستان کے ابتدائی سالوں میں خواتین کی بعض تنظیموں، خاص طور پر آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (اپوا) نے خواتین کو ان کے بنیادی انسانی وقار سے آگاہ کرنے اور عوامی زندگی میں ان کی زیادہ سے زیادہ شرکت اور مسلم عائلی قوانین میں اصلاحات کے لیے لابنگ کرنے کا کام کیا۔ کارکنان نے مردوں کی طرف سے ایک سے زائد شادی اور طلاق کے حقوق کے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا۔ مسلم پرسنل لا میں اصلاحات کے لیے ان کی تحریک کو جس چیز نے ایک اضافی محرک فراہم کیا، وہ اس وقت کے وزیر اعظم محمد علی بوگرا کی 1955ء میں دوسری شادی تھی جو اس وقت قانونی اعتبار سے اپنی پہلی بیوی سے رشتہ ازدواج میں منسلک تھے مگر وہ دوسری شادی کر چکے تھے۔ وزیراعظم کی پہلی اہلیہ نے ان کی دوسری شادی کی مخالفت کی تھی۔

اپوا نے پہلی بیوی کی حمایت کرتے ہوئے ملک بھر میں احتجاج شروع کردیا۔ وہ وزیر اعظم کی دوسری شادی کے خلاف تھے اور مسلم عائلی قوانین میں تبدیلی چاہتے تھے۔ کئی سالوں کی بحث اور محنت کے بعد حکومت نے 1961ء میں ایک قانون پاس کیا۔ اس قانون کے تحت جوڑے کو شادی کرنے سے پہلے نکاح نامہ نامی ایک فارم بھرنا ہوگا۔

نکاح نامے کے فارم پر 25 انٹریز ہوتی ہیں جن میں دلہا، دلہن اور ان کے گواہان سے متعلق بنیادی تفصیلات طلب کی جاتی ہیں۔ تاہم بہت سے مقامات بالخصوص دیہی علاقوں میں، لوگ نکاح نامے کو بالکل استعمال نہیں کرتے ہیں اور شادیاں اب بھی غیر رسمی طور پر فارم کو مکمل کیے یا اس پر دستخط کیے بغیر کی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب نکاح نامہ استعمال کیا جاتا ہے، اس کے بہت سے حصے یا تو خالی رہ جاتے ہیں یا کراس آؤٹ کر دیے جاتے ہیں۔ شادی کرنے والے لوگ اکثر نکاح نامے کو پوری طرح سے نہیں سمجھتے یا یہ نہیں سمجھ پاتے کہ یہ کتنا اہم دستاویز ہے۔

نکاح نامہ فارم 60 سال سے زائد پہلے بنایا گیا تھا اور اسے پچھلی چھ دہائیوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے پیش نظر اپ گریٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ فارم میں کچھ نئی معلومات شامل کی جانی چاہئیں جیسے سناختی کارڈ نمبر، شادی فون پر ہوئی ہو یا آن لائن اور دلہا کی ازدواجی حیثیت کے بارے میں تفصیلات (جیسے وہ سنگل یا شادی شدہ ہے یا طلاق یافتہ) سب شامل کیا جانا چاہیے۔۔ ولی کے بارے میں سیکشنز کو بھی اپ ڈیٹ کیا جائے کیونکہ دولہا اور دلہن دونوں، اگر قانونی عمر کو پہنچ چکے ہیں تو وہ کسی سرپرست کی ضرورت کے بغیر خود ہی نکاح کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ نکاح نامے میں ان تمام طبی ٹیسٹ کے بارے میں معلومات شامل ہونی چاہئیں جو جدید طب کے مطابق شادی سے پہلے کروانے ضروری ہوتے ہیں۔ یہ ٹیسٹ معذور بچوں کے پیدا ہونے کے امکانات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

اگرچہ نکاح نامہ زندگی کا ایک اہم دستاویز ہے لیکن بدقسمتی سے یہ کم معیار کے کاغذ پر چھاپا جاتا ہے اور بہت بڑا ہوتا ہے۔ نتیجتاً یہ چند ہی سالوں میں خراب اور پھٹ جاتا ہے۔ اسے اسکین یا کاپی کرنا بھی مشکل ہے۔ بہتر ہوگا کہ نکاح نامہ اچھے معیار کے اے 4 سائز کے کاغذ پر پرنٹ کیا جائے جیسا کہ یونیورسٹی کی ڈگریوں کے لیے معیاری کاغذ استعمال کیا جاتا ہے۔ میں نے دوسرے ممالک کے شادی کے سرٹیفکیٹ دیکھے ہیں جو زیادہ پیشہ ور اور متاثر کن نظر آتے ہیں۔

نکاح نامے کو کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ کے لیے دوبارہ ڈیزائن کیا جانا چاہیے تاکہ اسے نادرا کے ڈیٹا بیس سے منسلک کیا جا سکے۔ اس سے درست اور آسانی سے ریکارڈز تصدیق کرنے میں مدد ملے گی۔ اس وقت شادیوں کی صداقت پر بہت سے تنازعات اور عدالتی مقدمات چل رہے ہیں، ایسے میں ڈیجیٹل نظام ان مسائل کو کافی حد تک کم کرسکتا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

امین ولیانی

لکھاری ماہرِ تعلیم ہیں اور مذہب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 1 مارچ 2025
کارٹون : 28 فروری 2025