• KHI: Asr 4:56pm Maghrib 6:35pm
  • LHR: Asr 4:22pm Maghrib 6:02pm
  • ISB: Asr 4:25pm Maghrib 6:06pm
  • KHI: Asr 4:56pm Maghrib 6:35pm
  • LHR: Asr 4:22pm Maghrib 6:02pm
  • ISB: Asr 4:25pm Maghrib 6:06pm

امریکی صدر کیساتھ تعلقات کی بحالی ممکن ہے، زیلنسکی کا معافی مانگنے سے انکار

شائع March 1, 2025
ٹرمپ نے کیف اور یورپی اتحادیوں کو امریکی پالیسی میں اچانک یوٹرن لے کر پریشان کر دیا ہے — فوٹو: اے ایف پی
ٹرمپ نے کیف اور یورپی اتحادیوں کو امریکی پالیسی میں اچانک یوٹرن لے کر پریشان کر دیا ہے — فوٹو: اے ایف پی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین کے رہنما پر روس کے ساتھ امن قائم کرنے سے انکار کا الزام عائد کیے جانے کے بعد ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ ان کے تعلقات اب بھی بحال کیے جا سکتے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ’فاکس نیوز‘ کو انٹرویو میں جب زیلنسکی سے پوچھا گیا کہ کیا ٹرمپ کے ساتھ تعلقات کو بحال کیا جا سکتا ہے تو انہوں نے کہا کہ یقیناً۔

انہوں نے کہا کہ امریکا اور یوکرین کے تعلقات دو سے زیادہ صدور کے بارے میں ہیں، یوکرین کو روس کی کہیں زیادہ بڑی اور بہتر مسلح فوج کے خلاف لڑائی میں واشنگٹن کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔

ٹرمپ کے پسندیدہ نیوز چینل ’فاکس‘ پر زیلنسکی نے کہا کہ ’آپ کی حمایت کے بغیر یہ مشکل ہوگا‘۔

زیلنسکی کا یہ انٹرویو اوول آفس کے غیر معمولی منظر نامے کے چند گھنٹوں بعد سامنے آیا، جہاں روسی حملے کے خلاف یوکرین کی لڑائی کے لیے بڑے پیمانے پر حمایت کی سالہا سال پرانی امریکی پالیسی ’شور شرابے کے میچ‘ میں بدل گئی تھی۔

اس تنازع کے بعد یورپی رہنماؤں نے یوکرین کی حمایت میں آواز بلند کرنے کی کوشش کی، جب کہ زیلنسکی کو معدنیات کی تقسیم کے معاہدے پر دستخط کیے بغیر جلد وائٹ ہاؤس چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، جسے امریکا کی ثالثی میں جنگ بندی کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔

امریکی اور بین الاقوامی میڈیا کے سامنے ہونے والی جھڑپ کے دوران ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس نے زیلنسکی پر نعرے بازی کرتے ہوئے ان پر ’شکر گزار‘ نہ ہونے اور جنگ بندی کی مجوزہ شرائط کو قبول کرنے سے انکار کرنے کا الزام عائد کیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’آپ کے پاس اب کوئی کارڈ نہیں، آپ یا تو کوئی معاہدہ کریں یا ہم اس معاملے سے باہر ہوجائیں گے، اور اگر ہم باہر ہوئے تو آپ روس سے لڑیں گے، اور مجھے نہیں لگتا کہ یہ اچھا ہوگا۔‘

زیلنسکی کچھ ہی دیر بعد چلے گئے اور ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ ’وہ اس وقت واپس آسکتے ہیں جب وہ امن کے لیے تیار ہوں‘۔

امریکی میڈیا کے مطابق زیلنسکی کو ٹرمپ کے سینیئر حکام نے ملک چھوڑنے کے لیے کہا تھا۔

امریکی صدر نے صحافیوں کو بتایا کہ زیلنسکی اپنا ہاتھ بڑھا رہے ہیں اور انہیں فوری طور پر لڑائی ختم کرنے پر رضامند ہونا چاہیے۔

تاہم زیلنسکی نے معافی مانگنے سے انکار کرتے ہوئے ’فاکس نیوز‘ کو بتایا کہ ’مجھے یقین نہیں ہے کہ ہم نے کچھ برا کیا ہے‘، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’کاش ان جملوں کا تبادلہ صحافیوں کے سامنے نہ ہوتا۔‘

بعد ازاں امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے ’سی این این‘ سے بات کرتے ہوئے زیلنسکی سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات پر معافی مانگیں کہ انہوں نے ایک اجلاس میں وقت ضائع کیا۔

’زیلنسکی اکیلے نہیں‘

یورپ میں امریکا کے اتحادی پہلے ہی پریشان تھے کہ ٹرمپ، یوکرین کو مؤثر طریقے سے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو فتح سونپنے پر مجبور کر دیں گے، اس واقعے کے بعد زیلنسکی کی حمایت کرنے کے لیے دوڑ پڑے۔

پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے زیلنسکی کے لیے کہا کہ ’آپ اکیلے نہیں ہیں‘۔

برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ جھڑپ کے بعد ٹرمپ اور زیلنسکی دونوں سے فون پر بات کی تھی اور کیف کے لیے ’غیر متزلزل حمایت‘ کا عہد کیا تھا۔

انتہائی دائیں بازو کے اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے یوکرین کے معاملے پر امریکا، یورپ اور ان کے اتحادیوں کے درمیان بغیر کسی تاخیر کے سربراہ اجلاس کا مطالبہ کیا ہے۔

کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانیا جولی نے کہا کہ انہوں نے اپنے یوکرینی ہم منصب سے بات کی اور یوکرین کی سلامتی، خودمختاری اور لچک کو یقینی بنانے کے لیے ضروری مدد فراہم کرنے کے کینیڈا کے عزم کا اعادہ کیا۔

امریکی سینیٹ کے سینئر ڈیموکریٹ چک شومر نے کہا کہ ٹرمپ اور وینس، پیوٹن کا گندا کام کر رہے ہیں، سینیٹ ڈیموکریٹس آزادی اور جمہوریت کے لیے لڑنا کبھی نہیں چھوڑیں گے۔

روس کی خوشی

روس کے سابق صدر دمتری میدویدیف نے زیلینسکی کو ’بے حس‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اوول آفس میں ’مناسب تھپڑ‘ مارا گیا۔

ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی نے زیلنسکی کو مورد الزام ٹھہرانے میں روسیوں کی حمایت کی۔

یوکرین، زیلنسکی کی حمایت میں متحد نظر آیا اور اس کے آرمی چیف نے ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا عہد کیا جب کہ وزیر خارجہ نے ان کی بہادری کی تعریف کی۔

’قاتل‘ کے ساتھ سمجھوتہ؟

یہ بحران اس وقت سامنے آیا جب ٹرمپ نے کہا کہ یوکرین کو روس کے ساتھ جنگ بندی میں ’سمجھوتہ‘ کرنا پڑے گا، جس نے ملک کے بڑے حصے پر قبضہ کر رکھا ہے۔

زیلنسکی نے کہا کہ ہمارے علاقے میں قاتل کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔

جب انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ مغربی حمایت یافتہ امن کی سابقہ کوششیں روسی جارحیت کو روکنے میں ناکام رہی ہیں تو وینس نے اس میں مداخلت کی اور انہیں ’توہین آمیز‘ قرار دیا۔

اس کے بعد اجلاس میں ٹرمپ اور وینس نے کھل کر یوکرین کے رہنما کو تنقید کا نشانہ بنایا، جب اس کے میزبان اس کے بارے میں بات کر رہے تھے تو وہ واضح بے چینی میں بیٹھے تھے۔

ٹرمپ نے کیف اور یورپی اتحادیوں کو امریکی پالیسی میں اچانک یوٹرن لے کر پریشان کر دیا ہے، اور خود کو پیوٹن اور زیلنسکی کے درمیان ثالث کے طور پر پیش کیا ہے اور روسی حملے کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

انہوں نے اوول آفس میں کہا کہ ’متعدد مواقع پر پیوٹن سے بات کی ہے۔‘

ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے زیلنسکی کو ’ڈکٹیٹر‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ پیوٹن جنگ بندی پر ’اپنا وعدہ پورا کریں گے‘۔

ٹرمپ نے زیلنسکی سے کہا کہ ثالث کی حیثیت سے وہ کسی ایک اہم فریق پر تنقید نہیں کر سکتے۔

تاہم فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے زیلنسکی نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ ٹرمپ ہمارا زیادہ ساتھ دیں۔

دریں اثنا یوکرین پر روس کا حملہ جاری ہے۔

کیف نے جمعے کے روز کہا کہ روسی پیادہ فوج جمعے کے روز روسی علاقے کرسک سے یوکرین کی سرحد پر دھاوا بول رہی تھی، جو اس علاقے کے قریب ہے جہاں گزشتہ موسم گرما میں یوکرین کی افواج نے قبضہ کر لیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 3 مارچ 2025
کارٹون : 2 مارچ 2025