• KHI: Zuhr 12:44pm Asr 4:57pm
  • LHR: Zuhr 12:14pm Asr 4:22pm
  • ISB: Zuhr 12:19pm Asr 4:26pm
  • KHI: Zuhr 12:44pm Asr 4:57pm
  • LHR: Zuhr 12:14pm Asr 4:22pm
  • ISB: Zuhr 12:19pm Asr 4:26pm

مجھ پر اعتراف جرم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے، ملزم شیراز کا بیان

شائع March 3, 2025
— فائل فوٹو: اسمٰعیل ساسولی
— فائل فوٹو: اسمٰعیل ساسولی

کراچی میں مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کیس میں ملزم شیراز کو بیان دینے کے لیے عدالت میں پیش کردیا گیا، جہاں شیراز نے انکشاف کیا کہ میں ارمغان کے ہاتھوں مصطفیٰ عامر کے قتل کا واحد چشم دید گواہ ہوں، تاہم مجھ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ اعتراف جرم کر لوں۔

ڈان نیوز کے مطابق ملزم شیراز نے دفعہ 164 کے تحت مجسٹریٹ کو بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ اعترافی بیان کے لیے ان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے، کہا گیا ہے کہ اعتراف کرو گے تو کم سزا ملے گی، ملزم کے اس بیان پر عدالت نے تفتیشی افسر کی ملزم شیراز کے اعترافی بیان کی درخواست مسترد کردی۔

ملزم شیراز نے کہا کہ میں اس کیس کا گواہ ہوں، میرے سامنے ارمغان نے مصطفیٰ کو قتل کیا ہے، جن حالات میں قتل ہوا، میں مصطفیٰ کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

قبل ازیں جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی نے ملزم کو سوچنے کے لیے ایک گھنٹے کا وقت دے دیا تھا، ملزم نے سوچ سمجھ کر اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا، جس کے بعد تفتیشی افسر کی ملزم کے اعترافی بیان ریکارڈ کروانے کی درخواست مسترد کردی گئی۔

وقفے سے قبل فاضل جج نے ملزم کو کہا تھا کہ یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے، آپ اچھی طرح سوچ لیں، پھر سوچ سمجھ کر ایک گھنٹے بعد بیان ریکارڈ کروا دیں، بعد ازاں جج نے سماعت ایک گھنٹے کے لیے ملتوی کردی تھی۔

مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کیس میں ملزم شیراز کو ایک گھنٹے بعد بیان دینے کے لیے پیش کیا گیا تو اس نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ اعترافی بیان دینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔

25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔

بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔

ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔

ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔

ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔

کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔

بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔

دریں اثنا 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔

تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔

پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔

1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 4 مارچ 2025
کارٹون : 3 مارچ 2025