• KHI: Zuhr 12:44pm Asr 4:57pm
  • LHR: Zuhr 12:14pm Asr 4:22pm
  • ISB: Zuhr 12:19pm Asr 4:25pm
  • KHI: Zuhr 12:44pm Asr 4:57pm
  • LHR: Zuhr 12:14pm Asr 4:22pm
  • ISB: Zuhr 12:19pm Asr 4:25pm

مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ارمغان کی تفتیشی رپورٹ میں مزید تفصیلات سامنے آگئیں

شائع March 3, 2025
— فائل فوٹو: ڈان نیوز
— فائل فوٹو: ڈان نیوز

کراچی میں مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کیس کی تفتیشی رپورٹ سامنے آگئی، جس میں سنسنی خیز انکشافات کیے گئے ہیں۔

ڈان نیوز کو موصول مصطفیٰ عامر کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کی تفتیشی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پارٹی سے قبل ایک لڑکی ملزم ارمغان کے بنگلے پر آئی، بات چیت کے دوران تلخ کلامی ہونے پر لڑکی بنگلے سے چلی گئی۔

رپورٹ کے مطابق اگلے روز ملزم ارمغان اور مصطفیٰ عامر کا ذاتی وجوہات پر جھگڑا ہوا، 5 جنوری کو ارمغان نے لڑکی اور شیراز کو اپنے بنگلے پربلایا، ملزم ارمغان نے لڑکی کو لوہے کی راڈ سے تشدد کا نشانہ بنایا، جس سے وہ زخمی ہوگئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملزم نے لڑکی کو آن لائن ٹیکسی کروا کر واپس جانے اور علاج کروانےکا کہا، ملزم کے مطابق لڑکی کو اسلحے کی گولی دکھا کر قانونی کارروائی کرنے سے منع کیا۔

تفتیشی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 6 جنوری کو ارمغان نے شیراز کو بنگلے پر بلایا اور ساتھ نشہ کیا، 6 جنوری کی ہی رات 9 بجےمصطفیٰ عامر بھی ارمغان کے بنگلے پرآیا۔

رپورٹ کے مطابق مقتول مصظفیٰ عامر سے جھگڑا ہونے پر اسے بھی ارمغان نے لوہے کی راڈ سے مارا، تشدد کے دوران ملزمان ارمغان اور شیراز نے مصطفیٰ عامر کے کپڑے بھی اتارے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سفید چادر سے مصطفیٰ عامر کے ہاتھ پاوں باندھے اور اسے سیڑھیوں سے گھسیٹ کر نیچے اتارا، مصطفیٰ کی گاڑی ارمغان کے بنگلے کی پارکنگ میں موجود تھی۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملزمان نے مصطفیٰ عامر کو اس کی گاڑی کی ڈگی میں ڈالا اور حب لے گئے، دو ملازمین سے کمرے میں موجود خون کے نشانات صاف کرنے کا کہا گیا۔

تفتیشی رپورٹ کے مطابق مصطفیٰ عامر کے کپڑے، موبائل فون اور انٹرنیٹ ڈیوائس ارمغان نے اپنے پاس رکھ لی، مصطفیٰ عامر کی گاڑی میں پیٹرول نہ ہونے پر ارمغان نے بنگلے سے پیڑول کا گیلن ساتھ لیا۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ ملزمان مصطفیٰ کا موبائل فون اوردیگر سامان راستے میں پھیکنتے رہے، رات ساڑھے 4 بجے حب پہنچے،گاڑی پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔

اس میں مزید کہا گیا کہ ارمغان اور شیراز حب سے کراچی کے لیے پیدل نکلے، ملزمان ناشتے کے لیے ایک ہوٹل پر رکے، ملزم کے مطابق ہوٹل والے نے اس کے پاس گن دیکھی تو وہ ہوٹل سے نکل گئے۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈھائی سے 3 گھنٹے پیدل چلنے کے بعد مختلف گاڑیوں سے لفٹ لے کر کراچی پہنچے، چند روز بعد مصطفیٰ عامر کی والدہ نے ارمغان سے بیٹے کے بارے میں پوچھا۔

رپورٹ کے مطابق ارمغان کے مطابق مصطفیٰ عامر 6 جنوری کی رات نعمان نامی دوست کا بتا کر اس کے پاس آیا تھا، ،مقتول کی والدہ کے شک ہونے پر ارمغان اور شیراز اسلام آباد چلے گئے۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔

25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔

بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔

ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔

ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔

ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔

کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔

بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔

دریں اثنا 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔

تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔

پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔

1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 4 مارچ 2025
کارٹون : 3 مارچ 2025