کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کیلئے اسپاٹ پروکیورمنٹ میں ایک ارب سے زائد کی بے ضابطگیاں
پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی) اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیتے ہوئے نظام اور طریقہ کار کی خامیوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے، جس کے نتیجے میں سرکاری خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آڈٹ حکام کے مطابق جنید اکبر کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس کے دوران کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کے لیے اسپاٹ پروکیورمنٹ میں ایک ارب 15 کروڑ روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔
پی اے ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر راجا علی رضا انور نے خریداری کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ تمام خریداریاں نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے قواعد و ضوابط کے مطابق کی گئیں۔
پی اے سی اراکین نے اجلاس میں وزارت قانون کے نمائندوں کی عدم موجودگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور متعلقہ سیکریٹری کو آئندہ اجلاسوں میں شرکت کو یقینی بنانے کی ہدایت کی۔
کمیٹی نے نیوکلیئر پلانٹ کے لیے لائف ٹائم اسٹورز کی فراہمی کے لیے چین کے ساتھ ہونے والے معاہدے کا بھی جائزہ لیا۔
پی اے ای سی حکام نے وضاحت کی کہ کووڈ 19 سے متعلق رکاوٹوں کی وجہ سے ضروری اشیا کو مقامی مارکیٹ سے خریدنا پڑا، انہوں نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ تمام خریداری ٹینڈرز کے ذریعے شفاف طریقے سے کی گئی ہے۔
مزید برآں، پی اے سی نے تمام سرکاری اداروں اور وزارتوں کی جانب سے خریداری کے قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل کرنے کی اہمیت پر زور دیا، اور ہدایت کی کہ خریداری کے قواعد کی خلاف ورزی کرنے والے عہدیداروں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان اجمل گوندل نے تمام محکموں میں فنانشل مینجمنٹ میں شفافیت کی ضرورت پر زور دیا، آڈٹ رپورٹس میں بیک لاگ پر بات کرتے ہوئے کمیٹی کو بتایا گیا کہ 5 سے 6 لاکھ آڈٹ پیپرز ابھی تک حل نہیں ہوئے۔
ڈان ڈاٹ کام کے مطابق اجمل گوندل نے اجلاس کو بتایا کہ ریاستی اداروں کے آڈٹ کے عمل میں تاخیر نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو پریشان کر دیا ہے، آئی ایم ایف نے زیر التوا آڈٹ پیپرز پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے اداروں کے آڈٹ کیسز کو جلد نمٹانے کا مطالبہ کیا ہے، وزارتوں اور اداروں سے متعلق 5 سے 6 لاکھ آڈٹ پیپرز زیر التوا ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے احکامات کے باوجود چیف انٹرنل اکاؤنٹنٹ تعینات نہیں کیا گیا، قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے مالیاتی آڈٹ کا نظام ناقص ہے۔
اجمل گوندل نے کہا کہ اداروں کے سیکریٹریز اور چیف فنانشل افسران اپنے آڈٹ کلیئر نہیں کر رہے، 15 اداروں میں صرف چیف فنانشل افسران ہیں اور ان میں سے کسی کا بھی چیف انٹرنل اکاؤنٹنٹ نہیں ہے، انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اداروں میں داخلی آڈٹ کا کوئی نظام نہیں ہے۔
اے جی پی نے کہا کہ پی اے سی میں زیر التوا آڈٹ معاملوں کی تعداد بڑھ کر 30 ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے، پی اے سی نے وزارتوں اور اداروں سے ایک ماہ کے اندر اس معاملے کی تفصیلات طلب کرلیں، اراکین نے بہتری کو یقینی بنانے کے لیے احتساب کے نظام کی ضرورت پر زور دیا۔
ایف بی آر کی کوتاہیاں
فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے متعلق آڈٹ اعتراضات کے حوالے سے پی اے سی نے 807 ارب روپے مالیت کے 25 نمایاں پیراز کا جائزہ لیا۔
چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے انکشاف کیا کہ 312 ارب روپے کے فراڈ کی کوشش ناکام بنا دی گئی، تاہم 64 کروڑ روپے کا فراڈ کامیاب ہوگیا۔
کمیٹی نے ایف بی آر کی جانب سے کامن پول فنڈ سے متعلق ریکارڈ فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا یہ ادارہ نجی ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے؟
پی اے سی نے 312 ارب روپے کی سیلز ٹیکس چوری کیس کا بھی جائزہ لیا اور ادارے کی جانب سے تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا۔
سینیٹر افنان اللہ خان نے سوال اٹھایا کہ ایف بی آر نے اتنے بڑے پیمانے پر فراڈ کی نشاندہی کیسے کی؟ کمیٹی نے ایجنسی کو مزید جانچ پڑتال کے لیے معاملے کا مکمل ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
اجلاس میں پی اے سی کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا گیا اور حکام کا کہنا تھا کہ 4 فروری 2025 کو پی اے سی کے قیام کے بعد سے اب تک 30 ارب روپے کی ریکوری کی جاچکی ہے۔
اراکین نے پی اے سی کے اجلاسوں کے شروع ہوتے ہی ریکوری کرنے میں پی اے سی کی افادیت پر روشنی ڈالی۔
علاوہ ازیں ایف بی آر کی خاتون افسر کے تبادلے سے متعلق کیس زیر بحث آیا، جہاں پی اے سی نے فیصلے کی وجوہات پر سوالات اٹھائے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ اگرچہ وہ ایک قابل افسر ہیں لیکن وزیر خزانہ کے لیے ان کے الفاظ کا انتخاب ناقابل قبول ہے۔
اجلاس کا اختتام ایف بی آر کو ماہانہ ریکوری رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کے ساتھ ہوا، اور افسران کے خلاف تادیبی کارروائی سے قبل مکمل انکوائری کی ضرورت پر زور دیا گیا۔